الیکشن کا سال اور نیا وفاقی بجٹ

آئندہ مالی سال کے اس بجٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ انتخابی سال ہے اور پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اس سال اپنی انتخابی مہم شروع کرنے جا رہی ہیں۔ بجٹ کے مختلف پہلو انہیں اپنے انتخابی جلسوں کی تقریروں کے لیے مواد فراہم کریں گے۔

سمیرا لطیف

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال 18-2017 کا 50 کھرب 3 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیاہے۔

مسلم لیگ نون کی حکومت کا یہ پانچواں بجٹ کئی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اول یہ کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی حکومت کو مسلسل اپنا پانچواں بجٹ پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔دوسرا یہ کہ اپنی معیاد کے اعتبار سے یہ اس حکومت کا آخری سال ہے اور اگلے سال اس نے اپنے اعمال نامے کے ساتھ ووٹ لینے کے لیے عوام کے سامنے پیش ہونا ہے ۔

اور تیسرا یہ کہ سن 2013 میں نے اس جماعت نے لوگوں سے جو انتخابی وعدے کیے تھے، یہ بجٹ ان وعدوں کو وفا کرنے کا آخری موقع ہے۔

آئندہ مالی سال کے اس بجٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ انتخابی سال ہے اور پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں اس سال اپنی انتخابی مہم شروع کرنے جا رہی ہیں۔ بجٹ کے مختلف پہلو انہیں اپنے انتخابی جلسوں کی تقریروں کے لیے مواد فراہم کریں گے۔

یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ عام لوگ اس بجٹ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں،بہتر ہو گا کہ ایک نظر بجٹ کے کلیدی پہلوؤں پر ڈال لی جائے۔

اس بجٹ میں دفاع کے لیے9 کھرب 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کل اخراجات کا تخمینہ 50 کھرب 3 ارب روپے جب کہ کُل آمدنی سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 23 کھرب 84 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بجٹ میں پاکستان کی تاریخ میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ فنڈز رکھے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

نون لیگ کی حکومت یہ توقع کررہی ہے کہ اس سال لوڈ شیڈنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی، اور بجلی کی بلا روک ٹوک فراہمی انڈسٹری اور زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرے گی۔

بحٹ میں تعلیم ، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ان کا معیار بہتر بنانے کے لیے بھی ماضی سے زیادہ فنڈز تجویز کیے گئے ہیں۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ لوگ اس بجٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔متعدد تبصرہ نگاروں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک جانب بجٹ میں دودھ اوردہی جیسی اشیائے ضرورت پر ٹیکس میں اضافے کو عوام دشمن قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آیندہ سال انتخابات کے انعقاد کے پیش نظر حکومت نے بجٹ میں عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔

رونامہ نئی بات کے ایڈیٹر عطاالرحمٰن کا خیال ہے کہ انتخابات کے قریب حکومتیں اپنے انتخابی مقاصد کو سامنے رکھ بجٹ بناتی ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی یہی کیا ہے۔ اس بجٹ میں ایک بڑا ترقیاتی پروگرام پیش کیا گیا ہے اور کئی قسم کے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار کرنے سے لیکر سمارٹ فون ، ہائبرڈ گاڑیوں، مرغی کا گوشت اور کسانوں کے لیے کھاد کی بوری کی قیمت میں کمی جیسے تمام اقدمات آیندہ سال انتخاباتمیں۔مثبت نتائج پیدا کرسکتےہیں۔

جبکہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عدنان عادل کا خیال ہے کہ حکومت بجٹ میں عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی توقع کے برعکس تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کیا گیا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی چھوٹ کی حد چار لاکھ سے بڑھانے کی توقع بھی پوری نہیں ہوسکی۔

دیکھا جائے تو نئے بجٹ میں کم آمدنی والوں کے لیے کوئی سہولت نہیں رکھی گئی۔ لوڈ شیڈنگ مسلسل جاری ہے۔ اور ایک جانب کسان تو دوسری جانب کلرک اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں۔

اگر حکومت کو آئندہ سال بجٹ پیش کرنے کا موقع نہ ملا تو یہ بجٹ وزیراعظم نواز شریف کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ لوڈ شیڈنگ ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے، اگر آیندہ برس الیکشن تک لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیا گیا تویہ بات حکومت کے لیے مثبت نتائج پیدا کرسکتی ہے۔