پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے اموات کی شرح تشویش ناک

پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے اموات کی شرح تشویش ناک

امریکہ کے نیشنل کینسرانسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹرجواین ذوجیوسکی کی تجویز ہے کہ غربت اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہرہسپتال میں طبی آلات سے آراستہ ایک خصوصی وین سروس متعارف کرائی جائے جو دور دراز دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کرایسی خواتین کا معائنہ کرے جن کی ہسپتالوں تک رسائی نہیں یا پھرجن کے پاس چھاتی کے سرطان کے معائنے کے لیے مالی وسائل نہیں۔

چھاتی کے سرطان کی ماہر ایک سینیئرامریکی ڈاکٹرنے متنبہ کیا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کاغیر صحت بخش طرز زندگی اور تاخیر سے بیماری کی تشخیص مستقبل میں پاکستان میں چھاتی کے سرطان میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہرسال 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے لگ بھگ 40 ہزارموت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔

امریکہ کے نیشنل کینسرانسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹرجواین ذوجیوسکی

پاکستان کا دورہ کرنے والی امریکہ کے نیشنل کینسرانسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹرجواین ذوجیوسکی نے ملک میں اموات کی اس شرح کوخطرناک قراردیتے ہوئے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اکثر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری کے بارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں اس لیے زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب یہ لاعلاج ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکڑ ذوجیوسکی کا ماننا ہے کہ مرض کی بر وقت تشخیص سے ہزاروں پاکستانی خواتین کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ امریکا کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں چھاتی کے سرطان سے متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لیکن ڈاکٹر ذوجیوسکی کہتی ہیں کہ امریکہ میں اس بیماری سے ہونے والی اموات کی شرح سب سے کم ہے کیونکہ مرض کی ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص کے بعد بروقت علاج سے خواتین صحت یاب ہو جاتی ہیں۔

ڈاکڑ ذوجیوسکی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہرایک لاکھ خواتین میں سے 30 کو چھاتی کا کینسر ہے جو باقی دنیا کے مقابلے میں ایک درمیانہ درجے کی شرح سمجھی جاتی ہے۔ تاہم امریکی ماہر کی رائے میں پاکستانی خواتین میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں چھاتی کے سرطان میں مبتلا افراد کے اندراج کے لیے سرکاری طور پر کوئی باقاعدہ نظام نہ ہونے کے باعث اس حوالے سے سامنے آنے والے تمام اعدادوشمار محض اندازوں پر مبنی ہیں۔

امریکی ماہر صحت کہتی ہیں کہ چھاتی کے سرطان کی یوں تو بہت سی وجوہات ہیں جن میں موٹاپا ،ورزش نہ کرنا، عورتوں کا بچوں کو دودھ نہ پلانا اور موروثی اثرات نمایاں ہیں لیکن ہر عورت کو اس سے متاثر ہونے کا خطرہ بہرحال لاحق ہے۔

ڈاکٹر ذوجیوسکی اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے کے زیر اہتمام ایک پروگرام کے تحت اس بیماری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی کوششوں میں مدد کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کررہی ہیں۔ اپنے قیام کے دوران انھوں نے مختلف شہروں میں تعلیمی اداروں ، طبی ماہرین ، میڈیا اور غیر سرکاری تظیموں کے ساتھ چھاتی کے سرطان کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا۔

ان کی تجویز ہے کہ غربت اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہرہسپتال میں طبی آلات سے آراستہ ایک خصوصی وین سروس متعارف کرائی جائے جو دور دراز دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کرایسی خواتین کا معائنہ کرے جن کی ہسپتالوں تک رسائی نہیں یا پھرجن کے پاس چھاتی کے سرطان کے معائنے کے لیے مالی وسائل نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو وقتا فوقتا اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرتے رہنا چاہیئے اوراگر انھیں کسی بھی مرحلے پر کوئی گلٹی محسوس ہوتووہ فوری طور پر طبی ماہر سے رجوع کریں تاکہ ممکنہ بیماری کا بروقت علاج ہو سکے۔ ”چھاتی کا سرطان پھیلنے سے مریض کے علاج پراٹھنے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور پیچیدگیاں بھی بڑھتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مرض کا فوری اور بروقت علاج کیا جائے۔“