امن عمل میں شرکت خودمختاری کے احترام سے مشروط

ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ عبدالباسط

پاکستان نے کہا ہے کہ اگر اس کے ’’مسائل اور نقطہ نظر کو صحیح معنوں میں خاطر میں‘‘ نہیں لایا جاتا تو بون کانفرنس سمیت افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل رہنا اُس کے لیے مشکل ہوگا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے سرکاری میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اپنے ملک کے فیصلے کا ایک بار پھر دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مہمند ایجنسی میں فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اس طرح کے اقدامات کا تقاضا کر رہے تھے۔

’’ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں یقیناً امن ہو لیکن جو حالات 26 نومبر کے واقعے کے بعد پیدا ہوئے ہیں اس میں ہماری شمولیت کسی طور بھی مناسب نہ تھی اس لیے ہم نے شرکت نہیں کی۔ پاکستان کی خودمختاری کی براہ راست خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر یہی صورت برقرار رہے گی تو پاکستان کے لیے یقیناً اس صورتحال میں کسی طریقے سے (افغانستان میں امن کےعمل کو) آسان بنانا یا اپنے وعدوں کو پورا کرنا بڑا مشکل ہوگا۔‘‘

پاکستانی ترجمان نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ محض بون کانفرنس میں ان کے ملک کی عدم شرکت کے فیصلے سے افغانستان میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

’’میرا خیال ہے پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک، خصوصاً جو بڑی طاقتیں ہیں، اس چیز کا پورا ادراک رکھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کس قدر ضروری ہے، نہ صرف اس خطے میں امن کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ اس لیے ہماری کوشش تو ہمیشہ یہی رہی ہے اور رہے گی کہ کسی طور افغانستان میں مصالحتی عمل کو تیز کیا جائے۔‘‘

ہلری کلنٹن

اُدھر جرمنی میں جاری بون کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اگر افغانستان دوبارہ دہشت گردی اور عدم استحکام کا ذریعہ بنتا ہے تو علاقائی سطح پر بڑے نقصانات ہوں گے کیوں کہ خطے کا مستقبل افغانستان سے منسلک ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے بقول گزشتہ 10 برس سے جاری امن و استحکام کی کوششوں میں ناصرف افغانستان کے پڑوسی ممالک بلکہ بین الاقوامی برادری کا کردار اہم ہے۔

’’یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان کی شمولیت سے یقیناً ہم مستفید ہوتے، اور اس ہال میں موجود کوئی بھی (مندوب) حالیہ سرحدی واقعے کی درست تفصیلات جاننے کے لیے امریکہ سے زیادہ فکر مند نہیں۔‘‘

صدر براک اوباما سمیت متعدد اعلیٰ امریکی عہدے داروں نے حالیہ دونوں میں پاکستان کو بون کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ ناکام رہے۔

مہمند ایجنسی میں 26 نومبر کو نیٹو حملے میں دو درجن فوجیوں کی ہلاکت پر پاکستان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بون کانفرنس میں عدم شرکت کا اعلان کیا تھا جس کی توثیق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی بھی کر چکی ہے۔