پاکستان میں بم ناکارہ بنانے والوں کی مشکلات

خیبر پختونخواہ کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کی افرادی قوت کا تذکرہ کرتے ہوئے شفقت ملک کا کہنا تھا کہ ان کی یونٹ میں صرف 38 اہلکار ہیں جو دیگر علاقوں کی پولیس کو تربیت اور معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والا ملک پاکستان گزشتہ ایک دہائی کے دوران دہشت گردی و انتہا پسندی سے بری طرح متاثرہ ہوا ہے اوراس کا شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ متاثر ہونے والوں میں سرفہرست ہے۔

خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے ان واقعات کے تدارک کے لیے جہاں دیگر محکمے اپنی کوششوں کو مصروف ہیں وہیں بم کو ناکارہ بنانے والا یونٹ محدود افرادی قوت کے ساتھ ان کوششوں میں پیش پیش ہے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ یونٹ کے سربراہ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس شفقت ملک کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ بڑا اور ان کی محکمے کی افرادی قوت اور استعداد کار محدود ہیں جسے ان کے بقول مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جمعہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں شفقت ملک کا کہنا تھا کہ وسائل کی کم یابی کے باوجود ان کا یونٹ مثالی کام کررہا ہے اور اپنے قیام کے بعد سے صرف تین چار سالوں میں تقریباً پانچ ہزار مختلف نوعیت کے بموں کو ناکارہ بنا چکا ہے۔

’’اگر آپ یہ دیکھیں اگر ایک بم دھماکے میں دس بندے بھی ہلاک ہوتے تو کیا ہوتا اور ان بموں کو ناکارہ بنا کر میرے یونٹ کے کم ازکم پچاس ہزار زندگیاں تو بچائی ہیں اور اربوں روپے کی املاک و دیگر نقصان سے بھی بچایا ہے۔‘‘

اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس شفقت ملک


اس صوبے میں حالیہ مہینوں کے دوران ایک بار پھر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ صرف گزشتہ ہفتے بم دھماکوں کے تین مختلف واقعات میں کم ازکم 150 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے۔

خیبر پختونخواہ کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کی افرادی قوت کا تذکرہ کرتے ہوئے شفقت ملک کا کہنا تھا کہ ان کی یونٹ میں صرف 38 اہلکار ہیں جو دیگر علاقوں کی پولیس کو تربیت اور معاونت بھی فراہم کرتے ہیں۔

’’ ابھی ہم اضلاع میں جو مقامی پولیس ہوتی ہے ان کی مدد لیتے ہیں جنہیں ہم نے خود تربیت دی ہوئی ہے ان اہلکاروں کی تعداد لگ بھگ 70 ہے اور یہ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ نہیں ہیں، وہ وہاں کام کرتے ہیں اور جب ہماری ضرورت ہو تو ہم وہاں جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا جو ویژن ہے 2014ء کا تو اگر ہمیں حکومت نے وسائل فراہم کیے تو ہم اسے 25 اضلاع تک لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور نیم فوجی فورسز کو خصوصی تربیت اور سازوسامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے کو جدید آلات کی فراہمی سے اس کی استعداد کار اور کارکردگی قابل ذکر حد تک بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سول نافرنامی کی تحریک نہیں یہ جنگ ہے اور اس قسم کی لڑائی کے لیے پولیس کو تربیت نہیں دی گئی۔ تو ایسے اسکواڈ بنائیں جو عملی طور پر اس خطرے کا مقابلہ کرسکیں۔‘‘

امریکہ نے اس یونٹ کو کچھ جدید آلات فراہم کیے ہیں


بموں کو ناکارہ بنانے کے دوران اکثر ان اہلکاروں کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور ایسے میں اضافی مراعت اور لائف انشورنس نہ ہونے کی باوجود دستیاب وسائل اور عزم ہی انھیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ نہ صرف بموں کو ناکارہ بناتا ہے بلکہ کسی بھی دھماکے کے بعد اس کی تحقیقات میں بھی اہم کردار کرتا ہے۔ جائے وقوع سے شواہد جمع کرنا، بم کی نوعیت اور اس میں استعمال ہونے والا مواد، اس کی مقدار جیسی معلومات کا تعین کرنا ابھی اسی یونٹ کی ذمہ داری ہے۔