جانوروں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف لاکھوں روپے جرمانہ تجویز

پاکستان کے شہر کراچی میں آوارہ کتوں کے خلاف چلائی جانے والی کتا مار مہم کے دوران بلدیہ کے اہلکار مارے جانے والے کتوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔

ملک میں اس وقت جانوروں کے حقوق کا جو قانون رائج ہے وہ برطانوی راج کے دوران 1890ء میں بنایا گیا تھا۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کی ایک کمیٹی نے جانوروں کے حقوق سے متعلق قانون سازی تجویز کرتے ہوئے اس میں جانوروں کا استحصال کرنے والوں کے لیے بھاری جرمانے اور قید کی سزاؤں کی سفارش کی ہے۔

ملک میں اس وقت جانوروں کے حقوق کا جو قانون رائج ہے وہ 1890ء میں برطانوی راج کے دوران بنایا گیا تھا۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے امورِ داخلہ نے "جانوروں پر ظلم سے بچاؤ کے قانون" میں ترمیم کا بِل منظور کیا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے پیش کیا تھا۔

بل میں کسی بھی جانور کو غیر ضروری طور پر وحشیانہ انداز میں ہلاک کرنے پر تین لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے جب کہ موجود قانون میں یہ جرمانہ محض 200 روپے ہے۔

اسی طرح کسی جانور پر غیر معمولی بوجھ لادنے اور اس سے ظلم و زیادتی کرتے ہوئے مشقت لینے پر جرمانے کی موجودہ 100 روپے کی رقم بڑھا کر دو لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

سینیٹر کریم خواجہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فی الوقت رائج قانون میں سزائیں اور جرمانے نہ ہونے کے برابر تھے جن میں قابلِ ذکر اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جانوروں کے ساتھ برے سلوک پر مجوزہ قانون میں 15 دن سے ایک ماہ قید تک کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے تاکہ لوگ جانوروں کے حقوق پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔

ان کے بقول، "ہم انسانوں۔۔۔ [کو] جانوروں اور دیگر جانداروں کے لیے سوچنا چاہیے۔ ماحولیات کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کرۂ ارض کی بقا اسی میں ہے کہ ان جانداروں کی نسلوں کو زندہ رہنے میں مدد دی جائے۔"

مجوزہ ترمیم میں جانوروں کو لڑائی کے لیے اکسانے پر 50 روپے کے بجائے تین لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے جب کہ بیمار جانور کو بے یار و مدد گار مرنے کے لیے چھوڑ دینے والوں کو دو لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔

سینیٹر خواجہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ بل سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا جائے گا اور اس نئے قانون کے نافذ العمل ہونے سے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور عام لوگوں کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہوگی۔

جانوروں کے حقوق اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سرگرم رضاکار عائشہ چندریگر اس مجوزہ قانون کو درست سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس امر کی اشد ضرورت تھی۔

ان کے بقول سرکاری سطح پر جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت کو محسوس کیا جانا خوش آئند ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ چندریگر کا کہنا تھا کہ جانوروں سے متعلق لوگوں کا عمومی رویہ مشفقانہ نہیں ہوتا جس کی وجہ اس شعور کی کمی ہے کہ جانور بھی اسی طرح مختلف کیفیات کو محسوس کرتے ہیں جس طرح کہ انسان۔

"یہ اس لیے نہیں ہے کہ لوگ برے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ آگاہی کی کمی ہے کہ جانوروں کو بھی خوشی، غم، غصہ اور خوف جیسی کیفیات کا احساس ہوتا ہے جو انسان بھی محسوس کرتے ہیں۔۔۔ یہ ضروری ہے کہ اس بابت اسکولوں کی سطح پر بھی تربیت دی جائے اور آئندہ نسلوں کو یہ تربیت دی جائے کہ تمام جانداروں کو ان کا مناسب حق ملے۔"

عائشہ چندریگر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جانوروں سے متعلق ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے تو ان کے تجربہ ہے کہ اس شخص میں خود بخود انسان کے لیے بھی شفقت آ جاتی ہے۔