خود کار ہتھیاروں اور راکٹ بموں سے لیس خودکش بمباروں نے منہاس ائربیس پر طلوع آفتاب سے قبل اچانک دھاوا بول دیا جنہیں سکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا۔
پاکستانی حکام نے کہا ہےکہ کامرہ میں فضائیہ کی ’منہاس ائربیس‘‘ پر خودکار ہتھیاروں اور راکٹوں سے لیس آٹھ خودکش حملہ آوروں نے جمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل اچانک دھاوا بول دیا جنہیں شدید لڑائی کے بعد سکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا۔
فضائیہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں ایک فوجی ہلاک اور بیس پر موجود 30 سے زائد طیاروں میں سے صرف ایک کو معمولی نقصان پہنچا۔
صوبہٴ پنجاب کے اٹک ضلع میں واقع پاکستان فضائیہ کی اس تنصیب میں داخل ہونے کے بعد خودکش حملہ آور جب اُس مقام کی طرف بڑھنے لگے جہاں طیارے کھڑے تھے تو وہاں تعینات محافظوں نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔
مشتبہ عسکریت پسندوں نے راکٹ بموں سے جوابی کارروائی کی جس کے بعد کم از کم چار گھنٹوں تک وہاں پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔
فضائیہ کے ترجمان نے بتایا کہ کمانڈوز کی مدد سے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن کی قیادت کرنے والے بیس کمانڈر ائرکموڈور محمد اعظم لڑائی میں زخمی ہو گئے مگر اُن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ’’ایک خودکش بمبار کی بارود میں لپٹی لاش لڑائی والے علاقے سے ملی ہی۔‘‘
خودکش بمباروں کی عمریں 19 اور 33 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں جن میں سے بعض نے فوجی وردیاں پہن رکھیں تھیں۔
وفاقی وزیر دفاع نوید قمر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حملہ آور تنصیب پر تباہی پھیلا کر پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ ’’مگر ہم نے کم از کم نقصان کے ساتھ اُن کا خاتمہ کیا۔‘‘
دہشت گردی کی ممکنہ کارروائی کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے میں خفیہ اداروں کی ناکامی سے متعلق سوال پر اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی صورت حال میں ایک حد تک دفاع ممکن ہوتا ہے۔
’’یہ تنصیب شہری آبادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، یہ ایک مسئلہ ہے ... (جس کی وجہ سے) ہر وقت وہاں سے دراندازی کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘
تاہم سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اُن کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندوں کی کارروائی بہرہال خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ربط نظر آ رہا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ یہ انتہائی منظم اور پُرجوش دہشت گرد تنظیمیں بلا خوف و خطر اپنی مرضی کے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں، جن میں انتہائی حساس فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں۔‘‘
مشاہد حسین نے کہا کہ اگرچہ پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں خاصی حد تک کامیاب رہی ہیں، مگر حکومت اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان اس سلسلے میں عدم تعاون کے باعث ایک موثر قومی حکمت عملی کا فقدان ہے۔
پاکستان فضائیہ کے ترجمان نے کامرہ میں ائربیس پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔ ’’پاکستان کی کوئی ائربیس بھی جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں۔‘‘
فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل طاہر رفیق بٹ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد ائرہیڈکوارٹر میں جمعرات کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
منہاس ائربیس دارالحکومت اسلام آباد سے 75 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے جو فضائیہ کے ایک بڑے تحقیقاتی و ترقیاتی مرکز ’پاکستان ائروناٹیکل کمپلیکس‘ سے متصل ہے۔
اس بیس پر موجود لڑاکا طیاروں میں چین کے اشتراک سے تیار کیے گئے ’جے ایف سترہ تھنڈر‘ بھی شامل ہیں جبکہ بڑی تعداد میں چینی ماہرین بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں تعینات ہیں۔
اطلاعات کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے منہاس ائربیس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ’’ہمیں اس آپریشن پر فخر ہے۔ ہماری قیادت نے خاصا عرصے پہلے کامرہ بیس پر حملے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکام نے خفیہ معلومات کی روشنی میں گزشتہ ہفتے مرتب کی گئی اپنی رپورٹ میں پاکستان فضائیہ کی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے خدشے کا اظہار بھی کیا تھا۔
گزشتہ سال کراچی میں پاکستان بحریہ کی ایک اہم تنصیب مہران بیس پر بھی مشتبہ عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔
سولہ گھنٹوں تک جاری رہنے والی دہشت گردی کی اس کارروائی میں دس فوجی اہلکار ہلاک جبکہ سمندری حدود کی نگرانی کرنے والےنیوی کے دو قیمتی جہاز تباہ اور ایک کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔
اس سے قبل راولپنڈی میں فوج کا جنرل ہیڈکوارٹرز بھی مشتبہ طالبان شدت پسندوں کےحملے کا نشانہ بن چکا ہے۔
پاکستانی فوج اور فضائیہ ملک کے شمال مغربی پہاڑی علاقوں میں مشتبہ طالبان جنگجوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشنز کرتے آئے ہیں۔
اس سلسلے کی تازہ کارروائیاں گزشتہ ہفتے اورکزئی ایجنسی نامی قبائلی علاقے میں کی گئیں جن میں حکام نے لڑاکا طیاروں کی بمباری میں دو درجن سے زائد مشتبہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک اور ان کے متعدد ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
فضائیہ کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں ایک فوجی ہلاک اور بیس پر موجود 30 سے زائد طیاروں میں سے صرف ایک کو معمولی نقصان پہنچا۔
صوبہٴ پنجاب کے اٹک ضلع میں واقع پاکستان فضائیہ کی اس تنصیب میں داخل ہونے کے بعد خودکش حملہ آور جب اُس مقام کی طرف بڑھنے لگے جہاں طیارے کھڑے تھے تو وہاں تعینات محافظوں نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔
مشتبہ عسکریت پسندوں نے راکٹ بموں سے جوابی کارروائی کی جس کے بعد کم از کم چار گھنٹوں تک وہاں پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔
فضائیہ کے ترجمان نے بتایا کہ کمانڈوز کی مدد سے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن کی قیادت کرنے والے بیس کمانڈر ائرکموڈور محمد اعظم لڑائی میں زخمی ہو گئے مگر اُن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ’’ایک خودکش بمبار کی بارود میں لپٹی لاش لڑائی والے علاقے سے ملی ہی۔‘‘
خودکش بمباروں کی عمریں 19 اور 33 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں جن میں سے بعض نے فوجی وردیاں پہن رکھیں تھیں۔
وفاقی وزیر دفاع نوید قمر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حملہ آور تنصیب پر تباہی پھیلا کر پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ ’’مگر ہم نے کم از کم نقصان کے ساتھ اُن کا خاتمہ کیا۔‘‘
دہشت گردی کی ممکنہ کارروائی کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے میں خفیہ اداروں کی ناکامی سے متعلق سوال پر اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی صورت حال میں ایک حد تک دفاع ممکن ہوتا ہے۔
’’یہ تنصیب شہری آبادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، یہ ایک مسئلہ ہے ... (جس کی وجہ سے) ہر وقت وہاں سے دراندازی کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘
تاہم سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اُن کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندوں کی کارروائی بہرہال خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ربط نظر آ رہا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ یہ انتہائی منظم اور پُرجوش دہشت گرد تنظیمیں بلا خوف و خطر اپنی مرضی کے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں، جن میں انتہائی حساس فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں۔‘‘
مشاہد حسین نے کہا کہ اگرچہ پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں خاصی حد تک کامیاب رہی ہیں، مگر حکومت اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان اس سلسلے میں عدم تعاون کے باعث ایک موثر قومی حکمت عملی کا فقدان ہے۔
پاکستان فضائیہ کے ترجمان نے کامرہ میں ائربیس پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔ ’’پاکستان کی کوئی ائربیس بھی جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں۔‘‘
فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل طاہر رفیق بٹ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد ائرہیڈکوارٹر میں جمعرات کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
منہاس ائربیس دارالحکومت اسلام آباد سے 75 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے جو فضائیہ کے ایک بڑے تحقیقاتی و ترقیاتی مرکز ’پاکستان ائروناٹیکل کمپلیکس‘ سے متصل ہے۔
اس بیس پر موجود لڑاکا طیاروں میں چین کے اشتراک سے تیار کیے گئے ’جے ایف سترہ تھنڈر‘ بھی شامل ہیں جبکہ بڑی تعداد میں چینی ماہرین بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں تعینات ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکام نے خفیہ معلومات کی روشنی میں گزشتہ ہفتے مرتب کی گئی اپنی رپورٹ میں پاکستان فضائیہ کی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے خدشے کا اظہار بھی کیا تھا۔
گزشتہ سال کراچی میں پاکستان بحریہ کی ایک اہم تنصیب مہران بیس پر بھی مشتبہ عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔
اس سے قبل راولپنڈی میں فوج کا جنرل ہیڈکوارٹرز بھی مشتبہ طالبان شدت پسندوں کےحملے کا نشانہ بن چکا ہے۔
پاکستانی فوج اور فضائیہ ملک کے شمال مغربی پہاڑی علاقوں میں مشتبہ طالبان جنگجوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشنز کرتے آئے ہیں۔
اس سلسلے کی تازہ کارروائیاں گزشتہ ہفتے اورکزئی ایجنسی نامی قبائلی علاقے میں کی گئیں جن میں حکام نے لڑاکا طیاروں کی بمباری میں دو درجن سے زائد مشتبہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک اور ان کے متعدد ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔