غلط فہمیاں تھیں یا نفرتیں؟ ظالم کون تھا، مظلوم کون؟ تحقیقات، الزامات، ٹریبیونل، کمیشن، کتابیں، لٹریچر، چالیس بیالیس سالوں میں سوال حل کیوں نہ ہوئے؟
واشنگٹن —
سولہ دسمبرانیس سو اکہتر۔۔۔تاریخ دانوں کے لئے شمسی کیلنڈر کی ایک ایسی تاریخ، جس نے جنوبی ایشیا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔۔آج کےپاکستان اور بنگلہ دیش کی وہ پوری نسل ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکی ہے جو سولہ دسمبر 1971ء کے دن یا اس کے بعد پیدا ہوئی۔ پھر بھی سوال ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔
غلط فہمیاں تھیں یا نفرتیں؟ ظالم کون تھا، مظلوم کون؟ تحقیقات، الزامات، ٹریبیونلز، کمیشن، کتابیں، لٹریچر۔۔۔وقت کا پہیہ کتنی تیزی سے گھوما۔۔۔ کتنی عوامی حکومتوں میں ترازو کے پلڑے یکساں جھولے۔۔ کتنی فوجی آمریتوں نے عوامی رائے کو بوٹوں تلے روندنے کی کوشش کی۔۔۔ چالیس، بیالیس سالوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کی معیشتوں میں کس نے ترقی کی، اور کس نے تنزلی دیکھی ۔۔۔دونوں ملکوں کی کل آبادی میں کتنے انسانوں کو روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم کے بنیادی حقوق مل سکے۔ ایسی بحثوں سے قطع نظر، سنہ 71 کے واقعات کا ارتعاش، آج بھی بنگلہ دیش اور پاکستان کے سیاسی منظر اور اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت اسلامی کے سینئیر رہنما عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد، جنہیں سنہ 71 کے واقعات میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا تھا، بنگلہ دیش میں اس سزا کی حمایت اور موافقت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اور پاکستان میں مذمتی بیانات کا۔ امریکہ میں انسانی حقوق کے ادارے اور سیاسی تجزیہ کار، اس سزائے موت پر اتنی جلد عمل درآمد کو قانونی تقاضوں کے برخلاف اور خامیوں سے ُپر قرار دے رہے ہیں، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں نئے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ لیکن، پاکستانی وزارت خارجہ نے عبدالقادر ملا کی پھانسی کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر معاملے سے لاتعلقی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ اورکئی پاکستانی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا عبدالقادر ملا کی سزائے موت کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرنے والی پاکستانی پارلیمنٹ اور وزارت خارجہ ایک ہی حکومت کے دو حصے نہیں؟ ۔۔۔ پاکستان کی نئی نسل کو یہ بتانے میں آخر کیا نقصان ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی میں ’مکار دشمن‘ کے علاوہ، کس کا کتنا حصہ تھا؟
سنہ 71 کے واقعات کے ایک گواہ اور بنگلہ دیش کے صحافی شہریار کبیر ایک خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ سن اکہتر میں جنگی جرائم کا شکار بننے والے کئی افراد اب تک انصاف کے منتظر ہیں۔ عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد سے بنگلہ دیش نے دوسری اقوام کو واضح پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی زمین پر، بقول اُن کے، جرائم کے مرتکب افراد کواپنے قوانین کے اندر رہ کر، اپنے ٹریبیونلز کے ذریعے سزا دے سکتا ہے۔
سنہ 1971میں مشرقی پاکستان میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے آرنلڈ زایٹ لین کہتے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں اکہتر کی جنگ میں شریک پاکستانی بریگیڈئیرز نے خود تسلیم کیا ہے کہ بعض پاکستانی کمانڈرز کے اقدامات، جنہوں نے ’جنگی جرائم‘ کی اجازت دی، انتہائی مجرمانہ تھے۔
تاہم، سنہ71کی جنگ کے بارے میں ایک متنازعہ قرار دی جانے والی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ کی بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس کہتی ہیں کہ اکہتر کے واقعات میں پاکستانی فوج پر نسل کشی اور جنسی زیادتیوں کے الزامات بڑھا چڑھا کر بیان کئے گئے۔ جبکہ، ان زیادتیوں کا ذکر جان بوجھ کرچھپایا گیا، جو اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ بنگلہ دیش میں کی گئیں۔
مارچ 2011ء میں، واشنگٹن کے ’ووڈرو ولسن سینٹر‘ میں اپنی کتاب ’ڈیڈ ریکنگ‘ کے اقتباسات پڑھتے ہوئے، شرمیلا بوس نے ایک پاکستانی کیپٹن صمد علی کا ذکر کیا، جن کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ اقلیت سے تھا۔
شرمیلا بوس کے مطابق، ’لیفٹننٹ عطااللہ پاکستانی فوج کی اس بٹالین کے گیارہ جوانوں میں سے تھے جو جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ کیپٹن عطااللہ کے مطابق، کیپٹن صمد علی کو ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران پکڑا گیا اور دریا پر لے جا کر ذبح کر دیا گیا‘۔
شرمیلا بوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بظاہر بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جنگ کے علم برداروں کو ’اچھے پنجابی‘ یا ’ظالم بنگالی‘ جیسے کسی تصور کے امکان کوبھی تسلیم کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے۔
’اردو وی او اے‘ سے انٹرویو میں شرمیلا بوس نے کہا تھا کہ پچھلے 42 سالوں میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں قوم پرستی پر مبنی دیومالا وجود میں آچکی ہے، جو ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کتاب کا سب سے بڑا کام یہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے واقعات پر بحث دوبارہ شروع ہو جائے۔
شرمیلا بوس کی تحقیق کو، جس کے لئے، اُن کے بقول، انہوں نے 71 کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی فوجیوں اور بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں جاکر واقعات کے عینی شاہدوں سے بات چیت کی، کتنا معتبر یا متنازعہ سمجھا گیا، اس پر بحث سے قطع نظر اس کتاب نے کسی بھارتی محقق کے قلم سے سنہ 17 کے واقعات میں پاکستانی فوج کے کردار کا ایک ایسا رخ پیش کیا ہے، جس پر پچھلے 42 سالوں میں زیادہ بات نہیں کی گئی۔
غلط فہمیاں تھیں یا نفرتیں؟ ظالم کون تھا، مظلوم کون؟ تحقیقات، الزامات، ٹریبیونلز، کمیشن، کتابیں، لٹریچر۔۔۔وقت کا پہیہ کتنی تیزی سے گھوما۔۔۔ کتنی عوامی حکومتوں میں ترازو کے پلڑے یکساں جھولے۔۔ کتنی فوجی آمریتوں نے عوامی رائے کو بوٹوں تلے روندنے کی کوشش کی۔۔۔ چالیس، بیالیس سالوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کی معیشتوں میں کس نے ترقی کی، اور کس نے تنزلی دیکھی ۔۔۔دونوں ملکوں کی کل آبادی میں کتنے انسانوں کو روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم کے بنیادی حقوق مل سکے۔ ایسی بحثوں سے قطع نظر، سنہ 71 کے واقعات کا ارتعاش، آج بھی بنگلہ دیش اور پاکستان کے سیاسی منظر اور اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت اسلامی کے سینئیر رہنما عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد، جنہیں سنہ 71 کے واقعات میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا تھا، بنگلہ دیش میں اس سزا کی حمایت اور موافقت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اور پاکستان میں مذمتی بیانات کا۔ امریکہ میں انسانی حقوق کے ادارے اور سیاسی تجزیہ کار، اس سزائے موت پر اتنی جلد عمل درآمد کو قانونی تقاضوں کے برخلاف اور خامیوں سے ُپر قرار دے رہے ہیں، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں نئے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ لیکن، پاکستانی وزارت خارجہ نے عبدالقادر ملا کی پھانسی کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر معاملے سے لاتعلقی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ اورکئی پاکستانی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا عبدالقادر ملا کی سزائے موت کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرنے والی پاکستانی پارلیمنٹ اور وزارت خارجہ ایک ہی حکومت کے دو حصے نہیں؟ ۔۔۔ پاکستان کی نئی نسل کو یہ بتانے میں آخر کیا نقصان ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی میں ’مکار دشمن‘ کے علاوہ، کس کا کتنا حصہ تھا؟
سنہ 71 کے واقعات کے ایک گواہ اور بنگلہ دیش کے صحافی شہریار کبیر ایک خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ سن اکہتر میں جنگی جرائم کا شکار بننے والے کئی افراد اب تک انصاف کے منتظر ہیں۔ عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد سے بنگلہ دیش نے دوسری اقوام کو واضح پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی زمین پر، بقول اُن کے، جرائم کے مرتکب افراد کواپنے قوانین کے اندر رہ کر، اپنے ٹریبیونلز کے ذریعے سزا دے سکتا ہے۔
سنہ 1971میں مشرقی پاکستان میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے آرنلڈ زایٹ لین کہتے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں اکہتر کی جنگ میں شریک پاکستانی بریگیڈئیرز نے خود تسلیم کیا ہے کہ بعض پاکستانی کمانڈرز کے اقدامات، جنہوں نے ’جنگی جرائم‘ کی اجازت دی، انتہائی مجرمانہ تھے۔
تاہم، سنہ71کی جنگ کے بارے میں ایک متنازعہ قرار دی جانے والی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ کی بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس کہتی ہیں کہ اکہتر کے واقعات میں پاکستانی فوج پر نسل کشی اور جنسی زیادتیوں کے الزامات بڑھا چڑھا کر بیان کئے گئے۔ جبکہ، ان زیادتیوں کا ذکر جان بوجھ کرچھپایا گیا، جو اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ بنگلہ دیش میں کی گئیں۔
مارچ 2011ء میں، واشنگٹن کے ’ووڈرو ولسن سینٹر‘ میں اپنی کتاب ’ڈیڈ ریکنگ‘ کے اقتباسات پڑھتے ہوئے، شرمیلا بوس نے ایک پاکستانی کیپٹن صمد علی کا ذکر کیا، جن کا تعلق بلوچستان کی ہزارہ اقلیت سے تھا۔
شرمیلا بوس کے مطابق، ’لیفٹننٹ عطااللہ پاکستانی فوج کی اس بٹالین کے گیارہ جوانوں میں سے تھے جو جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ کیپٹن عطااللہ کے مطابق، کیپٹن صمد علی کو ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران پکڑا گیا اور دریا پر لے جا کر ذبح کر دیا گیا‘۔
شرمیلا بوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بظاہر بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جنگ کے علم برداروں کو ’اچھے پنجابی‘ یا ’ظالم بنگالی‘ جیسے کسی تصور کے امکان کوبھی تسلیم کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے۔
’اردو وی او اے‘ سے انٹرویو میں شرمیلا بوس نے کہا تھا کہ پچھلے 42 سالوں میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں قوم پرستی پر مبنی دیومالا وجود میں آچکی ہے، جو ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کتاب کا سب سے بڑا کام یہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے واقعات پر بحث دوبارہ شروع ہو جائے۔
شرمیلا بوس کی تحقیق کو، جس کے لئے، اُن کے بقول، انہوں نے 71 کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی فوجیوں اور بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں جاکر واقعات کے عینی شاہدوں سے بات چیت کی، کتنا معتبر یا متنازعہ سمجھا گیا، اس پر بحث سے قطع نظر اس کتاب نے کسی بھارتی محقق کے قلم سے سنہ 17 کے واقعات میں پاکستانی فوج کے کردار کا ایک ایسا رخ پیش کیا ہے، جس پر پچھلے 42 سالوں میں زیادہ بات نہیں کی گئی۔