پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم سات سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
مقامی عہدیداروں کے مطابق دو درجن سے زائد شدت پسندوں نے لورالائی کے علاقے میختر میں فرنٹیئر کور کی ایک چوکی پر خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس میں کم از کم سات سکیورٹی اہلکار ہلاک اور ایک اہلکار شدید زخمی ہو گیا۔
حملے کے بعد عسکریت پسند موقع سے فرار ہو گئے لیکن ’ایف سی‘ کی جوابی فائرنگ سے متعدد حملہ آور زخمی بھی ہوئے۔
علاقے میں سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری طلب کر لی گئی اور عسکریت پسندوں کی تلاش کی جا رہی ہے۔
مسلح افراد روزانہ کی بنیادوں پر ’ایف سی‘ کے ساتھ کام کرنے والے پانچ افراد کو بھی اغوا کر کے لے گئے تھے جن میں سے دو کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
لیویز حوالدار عبدالحلیم نے وائس آف امر یکہ کو بتایا کہ ضلع لورالائی اور ضلع ژوب کے سرحد ی حدود میں چیچالو کے مقام پر صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ پنجاب سے مُبینہ دہشت گردوں کے ممکنہ داخلے کو روکنے کے لیے پہاڑی علاقے میں لیویز کی ایک چیک پوسٹ ’ایف سی‘ کے زیر استعمال تھی۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’ایف سی‘ کے اہلکار جب معمول کی گشت ختم کر کے چیک پوسٹ پر پہنچے تو تقریباً 25 مسلح افراد نے اُنپر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دُھند فائرنگ کی۔
وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ایف سی اہلکاروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملک سے دہشت گر دی اور عسکر یت پسندی کے خاتمے کے عزم کو دہرایا۔
پشاور میں فوج کے زیر انتظام اسکول پر طالبان جنگجوؤں کے حملے کے بعد صوبائی حکام کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر فرنٹئیر کور نے ایک درجن سے زائد آپریشن کیے جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان صوبہ بلوچستان کے سربراہ امیر نجم الدین سمیت ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔
انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شورش پسندی کے شکار صوبہ بلوچستان میں اس سے قبل بھی سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں جن کا الزام حکام کالعدم عسکریت پسند تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی گوادر کے علاقے میں عسکریت پسندوں نے ایف سی کے قافلے پر حملہ کر کے تین اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔