بم دھماکے کے بعد راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس کی چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
کوئٹہ —
پاکستان کے سوزش زدہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں پیر کی صبح ریل کی پٹڑی پر بم دھماکے کے باعث مسافر ٹرین کو پیش آنے والے حادثے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
حکام نے بتایا کہ ضلع نصیر آباد کے علاقے نوتال میں یہ دھماکا اس وقت ہوا جب راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس وہاں سے گزر رہی تھی۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں ایک خاتون بھی شامل ہے جب کہ 10 سے زائد زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دھماکے کے بعد چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
اُنھوں نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
’’ابتدائی معلومات کے مطابق ریل کی پٹٹری پر بم نصب کیا گیا تھا جس میں ریمورٹ کنٹرول سے دھماکا کیا گیا۔ جب انجن گزر گیا تو اس وقت دھماکا کیا گیا تاکہ انسانی جانوں کا نقصان زیادہ ہو۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جو بلوچستان کے حقوق کے نام پر کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اُلٹنے والی بوگیوں کو کاٹ کر اُن میں موجود مسافروں کو باہر نکالا گیا۔
دھماکے سے ریل کی پٹڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا جس کے بعد کوئٹہ سکھر سیکشن پر ریل گاڑیوں کی آمد و رفت عارضی طور معطل کر دی گئی۔
ڈپٹی کمشنر نصیر آباد سہیل الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کے بعد پولیس اور نیم فوجی سکیورٹی فورس ’فرنٹیئر کور‘ نے مشتبہ افراد کی تلاش کے لیے کارروائی شروع کر دی۔
کوئٹہ سکھر ریلوے سیکشن پر عید الاضحٰی سے قبل بھی ایک مسافر ریل گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس سے ٹرین کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تاہم سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے تھے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے فرنٹئیر کور کے اختیارات میں اضافے کے علاوہ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں ایف سی کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں مسافر ریل گاڑی پر یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب کہ صوبائی حکومت گزشتہ ماہ آنے والے 7.7 شدت کے شدید زلزلے سے تباہ حال علاقوں میں امدادی کاموں اور بحالی کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
زلزلے سے سب سے زیادہ ضلع آواران متاثر ہوا جہاں امدادی کاموں میں مصروف افراد خاص کر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ضلع نصیر آباد کے علاقے نوتال میں یہ دھماکا اس وقت ہوا جب راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس وہاں سے گزر رہی تھی۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں ایک خاتون بھی شامل ہے جب کہ 10 سے زائد زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دھماکے کے بعد چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
اُنھوں نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
’’ابتدائی معلومات کے مطابق ریل کی پٹٹری پر بم نصب کیا گیا تھا جس میں ریمورٹ کنٹرول سے دھماکا کیا گیا۔ جب انجن گزر گیا تو اس وقت دھماکا کیا گیا تاکہ انسانی جانوں کا نقصان زیادہ ہو۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جو بلوچستان کے حقوق کے نام پر کسی اور کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اُلٹنے والی بوگیوں کو کاٹ کر اُن میں موجود مسافروں کو باہر نکالا گیا۔
دھماکے سے ریل کی پٹڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا جس کے بعد کوئٹہ سکھر سیکشن پر ریل گاڑیوں کی آمد و رفت عارضی طور معطل کر دی گئی۔
ڈپٹی کمشنر نصیر آباد سہیل الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے کے بعد پولیس اور نیم فوجی سکیورٹی فورس ’فرنٹیئر کور‘ نے مشتبہ افراد کی تلاش کے لیے کارروائی شروع کر دی۔
کوئٹہ سکھر ریلوے سیکشن پر عید الاضحٰی سے قبل بھی ایک مسافر ریل گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس سے ٹرین کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تاہم سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے تھے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے فرنٹئیر کور کے اختیارات میں اضافے کے علاوہ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں ایف سی کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں مسافر ریل گاڑی پر یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب کہ صوبائی حکومت گزشتہ ماہ آنے والے 7.7 شدت کے شدید زلزلے سے تباہ حال علاقوں میں امدادی کاموں اور بحالی کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
زلزلے سے سب سے زیادہ ضلع آواران متاثر ہوا جہاں امدادی کاموں میں مصروف افراد خاص کر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔