بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں نامعلوم افراد نے دوسرے صوبے سے آئے ہیں کم ازکم آٹھ مزدوروں کو فائرنگ کر کے ہلاک اور ایک کو زخمی کردیا۔
پولیس اور ضلعی حکام کے مطابق تحصیل حب کے علاقے ساکران میں ہفتہ کو دیر گئے نامعلوم مسلح افراد ایک پولٹری فارم پر پہنچے اور یہاں سے 11 مزدورں کو اغوا کر کے لے گئے۔
اغوا کاروں نے شناخت کے بعد ان میں سے دو مقامی مزدوروں کو چھوڑ دیا جب کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں پر فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہوگئے۔
نو میں سے آٹھ مزدور موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک زخمی مزدور اظہر نے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی۔
اظہر حسین نے پولیس کو بتایا کہ اغوا کاروں کی تعداد سات تھی اور وہ مزدوروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں ایک پہاڑی علاقے میں لائے۔ ان کے بقول مرنے والے مزدوروں کا تعلق پنجاب کے علاقے رحیم یار خان سے تھا۔
پولیس اور ایف سی نے علاقے میں اغوا کاروں کی تلاش کے لیے کارروائی شروع کردی ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے مزدوروں کی ہلاکتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکام کو اس میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے لیکن اس سے قبل بھی کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں بلوچستان میں دیگر صوبوں سے آکر کام کرنے یا آباد ہونے والوں پر ہلاکت خیز حملے کرچکی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے صوبائی عہدیدار طاہر حسین نے اس واقعے کو صوبے میں امن و امان کے حالات خراب کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
"جب تھوڑی بہت گفت و شنید کی بات چلتی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا دلخراش واقعہ ہو جاتا ہے جس سے جو تھوڑا بہت امن قائم ہوا ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچتا ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے صوبے میں ملک کے دیگر علاقوں سے آکر بسنے والوں اور یہاں مقیم مذہبی اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان سے نقل مکانی کر چکی ہے۔
"ہمارے اندازوں کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں بلوچستان میں دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے والے ایک لاکھ لوگ یہاں سے منتقل ہو چکے ہیں ان کو اردو بولنے والے کہہ لیں یا آبادکار یا غیر مقامی کہہ سکتے ہیں۔ ہزارہ برادری یا ہماری شیعہ کمیونٹی ہے اس کے تقریباً دو لاکھ لوگ یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں تو یہ سب امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہی تو ہے۔"
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات کی وجہ سے ماضی کی نسبت صوبے میں منظم جرائم اور دیگر پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔