پرانی یا تباہ شدہ گاڑی کو بیکار نہ سمجھیں

اگر خر یدار یہ گاڑی اپنے علاقے تک پہنچانے کی ذمہ داری فروخت کرنے والے شخص کے ذمے لگا دیتا تو اُسے گاڑی کی قیمت کے ساتھ دولاکھ مزید ادا کرنے پڑتے اور گاڑی اُسے پہنچا دی جاتی۔

پاکستان کے جنوب مغر بی صوبہ بلوچستان میں بعض علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں پرانی یا حادثے میں تباہ ہونے والی گاڑی کو کو ئی بھی شخص نئے اور جدید پرزے ڈال کر با لکل نئی گاڑی بنا سکتا ہے اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اُس کے پاس گاڑی کا پرانا فریم (یعنی ڈھانچہ) اور کاغذات ہونے چاہیں۔

چند سال پہلے سرحد پار افغانستان کے علاقے اسپین بولدک، ویش منڈی، میں یہ کام ہوا کرتا تھا لیکن کاروبار بڑھنے اور زیادہ منا فع ملنے کے بعد چمن بازار کے اندر بعض علاقوں میں کئی مقامات پر یہ کام شروع ہوا لیکن اب یہ کام کو ئٹہ شہر میں بھی ہورہا ہے۔

یہ کاروبار کرنے والے تاجر عبدالنافع کا کہنا ہے پاکستان کے مختلف علاقوں میں روزانہ بہت سی گاڑیاں حادثات میں تباہ ہو جاتی ہیں جنہیں اس کاروبار سے وابستہ افراد خرید لیتے ہیں اور ہمیں فروخت کر دیتے یا کسی ٹر ک میں ڈال کر یہاں لے آتے ہیں۔

کو ئٹہ میں ٹائر سے لے کر سپیڈ میٹر کی سوئی تک ہر ماڈل کی گاڑی کے نئے پرزے دستیاب ہیں اور قیمت بھی کراچی، لاہور، سر گودھا، راولپنڈی، پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں واقع سپیر پارٹس کی مارکیٹوں سے کافی کم ہے۔

یہاں گاڑی کا مالک اگر چاہے تو گاڑی کے فر یم کو کاٹ کر اس کے باقی تمام پرزوں کو فروخت کر کے اپنی گاڑی میں "ؔکابلی" (یعنی ٹیکس ادا کئے بغیر) گاڑی کے نئے اور جدید پرزہ جات ڈال اس کے ماڈل کو بھی ایک یا دوسال ایڈوانس کر سکتا ہے۔

چھوٹی گاڑیوں کے پرزہ جات کا کام کرنے والے حاجی میر احمد کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار چند سال پہلے بہت اچھا اور منا فع بخش تھا لیکن اب حکومت کے بعض اداروں کی طرف سے افغانستان سے آنے والے پرزہ جات کوئٹہ لانے کی اجازت نہ دینے سے یہ کاروبار ختم ہوکر رہ گیا ہے۔

"ہم لوگوں کو سب کو بے روزگار کیا گیا، کاروبار ہمار ا ختم ہوگیا ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ہم لوگوں کےلئے کچھ آسانی پیدا کرے ہم لوگ اسی کاروبار سے کچھ کماتے ہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے اور اُن کی اسکولوں کی فیس اداکر تے ہیں ہمارا مطالبہ ہے حکومت اور اداروں کے سر براہوں سے کہ وہ ہمارے لئے قانون کے دائر ے میں رہتے ہوئے کچھ رعایت دیں تاکہ ہم اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکیں۔"

بلوچستان میں چند سال پہلے کو ئی ٹیکس ادا کئے بغیر افغانستان سے بعض لوگ غیرقانونی طریقے سے انتہائی قیمتی گاڑیاں چمن لاتے اور پھر یہاں سے خرید کر کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں قائم کارشورومز یا گھروں میں لاکر کھڑی کر دیتے تھے اور پھر یہاں یا سرحدی شہر چمن سے ان گاڑیوں کی تصاویر فیس بُک یا وٹس اپ پر ڈال کر ملک کے کسی بھی علاقے میں خریدار سے اس کی قیمت طے کر کے گاڑی کو فروخت کردیتے تھے۔

اگر خر یدار یہ گاڑی اپنے علاقے تک پہنچانے کی ذمہ داری فروخت کرنے والے شخص کے ذمے لگا دیتا تو اُسے گاڑی کی قیمت کے ساتھ دولاکھ مزید ادا کرنے پڑتے اور گاڑی اُسے پہنچا دی جاتی۔

لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اسمگلنگ کے خاتمے کے لئے اُٹھائے گئے اقدامات کے بعد اب سمگل شدہ گاڑی کو ملک کے دوسرے علاقوں تک پہنچانا کافی مشکل ہوگیا اس لئے یہ کاروبار کرنے والے لوگوں نے اس کا متبادل حل حادثات میں تباہ شدہ گاڑیوں کی ری ماڈلنگ کر کے یا پرانی گاڑیوں میں نئے پرزے وغیرہ ڈال کراس کو نئی گاڑی بنا نے کی صورت میں نکالا ہے۔