بلوچستان اسمبلی تحلیل

(فائل فوٹو)

گورنر ذوالفقار مگسی نے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی طرف سے بھیجی گئی ایڈوائس کے مطابق اسمبلی تحلیل کی۔
گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی نے وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی سفارش پر پیر کو صوبائی اسمبلی تحلیل کردی۔ صوبائی حکومت کے تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق گورنر ذوالفقار مگسی نے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کی طرف سے بھیجی گئی ایڈوائس کے مطابق اسمبلی تحلیل کی تاہم نگران وزیراعلیٰ کے حلف اٹھانے تک اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ کے عہدے پر قائم رہیں گے۔

وزیراعلیٰ نے گورنر کو بھیجی گئی سمری میں صوبائی اسمبلی کی فوری تحلیل کی سفارش کی تھی۔

2008 ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد نواب اسلم رئیسانی کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی حکومت تشکیل دی گئی تھی جس کی حمایت جمعیت علمائے اسلام ، مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے علاوہ آزاد ارکان نے بھی کی۔ 65 ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی میں سے 64 ممبران حکومت میں شامل تھے۔

اس سے پہلے گزشتہ رات کو نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کی حمایت ترک کرنے والے مسلم لیگ ق، آزاد ارکان اسمبلی کے گروپ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دو ارکان نے مولانا عبد الواسع کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کر لیا تھا جس کا باقاعدہ نوٹیفیکشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔

لیکن چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان نے اسپیکر سید مطیع اللہ کی طرف سے جاری کیے گئے اس نو ٹیفیکشن کو معطل کر دیا اور مولانا عبد الواسع کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کر نے سے روک دیا ۔

ٓآئین کے تحت اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ کے مشورے سے ہی نگران وزیراعلی کو نامزد کیا جائے گا اس لیے صوبے کی تمام جماعتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ اسمبلی ختم ہونے سے پہلے وہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر لیں۔

وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کی مخلوط حکومت کوتقریباً اڑھائی ماہ قبل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں ناکام ہونے پر بر طرف کر دیا تھا اور صوبے میں دوماہ کے لیے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔ 14 مارچ کو گورنر راج ختم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال ہو گئی تھی اور تقریباً پینتالیس روز تک صوبے سے باہر رہنے والے اسلم رئیسانی اتوار کو کوئٹہ پہنچ گئے جہاں سی ایم ہاﺅس میں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی نے ان سے ملاقات کی اوراُنھیں حمایت کا یقین دلایا۔