پاکستان اور آسٹریلیا کا ٹکراؤ عالمی کپ میں تمام تر توجہ کا مرکز

پاکستان اور آسٹریلیا کا ٹکراؤ عالمی کپ میں تمام تر توجہ کا مرکز

اگرچہ آسٹریلیا اور پاکستان دونوں کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرچکے ہیں لیکن ہفتہ کو کھیلا جانے والا میچ جو بھی ٹیم جیتی گی وہ گروپ اے میں اول نمبر پر آجائے گی اور ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے اُس کا مقابلہ گروپ بی میں چوتھے نمبر پر آنے والی ٹیم کے ساتھ ہوگا۔

دفاعی چیمپئین آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان ہفتہ کو کولمبو میں دسویں عالمی کرکٹ کپ کا ایک اہم میچ ہورہا ہے۔ کرکٹ کے ان بین الاقوامی مقابلوں میں اب تک کھیلے گئے اکثر میچوں کے نتائج کے بارے میں مبصرین باآسانی قبل از میچ اندازے لگاتے رہیں ہیں اور جو زیادہ تر درست ثابت ہوئے ۔

لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان عالمی کپ کے اس میچ کے بارے میں کوئی بھی مبصر یقین سے کچھ کہنے سے قاصر ہے جس کی بڑی وجہ پاکستانی ٹیم کی بڑے مقابلوں میں اکثر خلاف توقع کارکردگی ہے۔

آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان میچ آر پریماداسا اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جس کی پِچ عمومی طور پر اسپِن باؤلروں کے لیے جنت سمجھی جاتی ہے اور آسٹریلوی کھلاڑی پاکستانی کپتان شاہد آفریدی، عبدالرحمن سمیت پارٹ ٹائم باؤلر محمد حفیظ کو یقینا احتیاط سے کھیلیں گے۔

آسٹریلوی بلے باز مائیکل ہسی

لیکن بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے مڈل آرڈر آسٹریلوی بلے باز مائیکل ہسی کی ٹیم میں واپسی نے کپتان رِکی پونٹنگ کے اعتماد میں یقینا اضافہ کیا ہے کیونکہ وہ اسپِن باؤلروں کو کھیلنے اور ضرورت پڑنے پر اُن کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔

پاکستانی کپتان شاہد آفریدی اس اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں کہ اُن کی ٹیم میں آسٹریلیا کو” ہرانے کا جذبہ اور صلاحیت“ موجود ہے۔ آسٹریلوی کپتان نے بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان تمام شعبوں میں مضبوط اور ایک متوزان ٹیم ہے اور خاص طور پر اُن کے بقول ٹورنامنٹ میں شاہد آفریدی نے اپنی ٹیم کے لیے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔

1999ء کے عالمی کپ کے ایک میچ میں پاکستان سے شکست کھانے کے بعد سے اب تک ہونے والے کرکٹ کے ان سب سے بڑے مقابلوں میں آسٹریلیا 34 میں سے ایک میچ بھی نہیں ہارا۔

آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے جمعہ کو کولمبو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ عالمی کپ میں فتوحات کی اس سلسلے کو برقرار رکھنے سے زیادہ اُن کے لیے اہم بات پاکستان جیسی ”خطرناک“ ٹیم کو شکست دینا ہے۔

پونٹنگ نے کہا کہ عالمی کپ کے مقابلوں میں آسٹریلوی ٹیم کا ”بہت اچھا اور قابل فخرریکارڈ رہا ہے لیکن یہ سب ماضی کی باتیں ہیں“۔ اُنھوں نے پاکستانی ٹیم کو متنبہ کیا کہ ”ہم کل کے میچ میں ٹورنامنٹ کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے“۔

سری لنکا کے سابق کپتان آرویندا ڈی سِلوا نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ موجودہ پاکستانی ٹیم عالمی کپ 2011ء جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ یکسوئی سے کھیلے۔

”اُن (پاکستان)کی ٹیم میں کچھ اچھے کھلاڑی شامل ہیں لیکن پاکستان کو زیادہ یکسوئی سےکھیلے ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگراُنھوں نے ایسا کیا توعالمی کپ جیتنے کا اُن کے پاس یہ ایک بہت اچھا موقع ہوگا۔ “

1996ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن اور فائنل میچ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے سری لنکن مایہ ناز بلے باز ڈی سِلوا نے بھی اس امر کااعتراف کیا ہے کہ پہلی مرتبہ عالمی کپ میں ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جہاں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی ٹیم یہ اعزاز حاصل کر سکے گی۔

آسٹریلیا نے رواں عالمی کپ میں نیوزی لینڈ، کینیا، کینیڈا اور زمبابوے کے خلاف میچ باآسانی جیت لیے تھے جبکہ سری لنکا کے خلاف میچ بارش کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکا۔ پاکستان نے سری لنکا، زمباوے، کینیا اور کینیڈا کے خلاف میچ جیت لیے تھے لیکن نیوزی لینڈ کے ہاتھوں اُس کو 110 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ آسٹریلیا اور پاکستان دونوں کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرچکے ہیں لیکن ہفتہ کو کھیلا جانے والا میچ جو بھی ٹیم جیتی گی وہ گروپ اے میں اول نمبر پر آجائے گی اور ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لیے اُس کا مقابلہ گروپ بی میں چوتھے نمبر پر آنے والی ٹیم کے ساتھ ہوگا۔

(فائل فوٹو)

مسلسل تین مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد آسٹریلیا چوتھی مرتبہ بھی یہ اعزاز حاصل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن موجود مقابلوں میں روایات کے برعکس اُس کی کارکردگی متاثر کُن نہیں رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود وہ واحد ٹیم ہے جسے اب تک ٹورنامنٹ کے کسی میچ میں شکست نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان نے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔

اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے 85 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سے 52 آسٹریلیا اور 29 پاکستان نے جیتے ہیں۔ ایک میچ برابررہا جبکہ تین بے نتیجہ رہے۔

جنوری 2010ء میں دونوں ٹیموں کے درمیان آخری میچ ایک سخت مقابلے کے بعد آسٹریلیا نےدو وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ پاکستان کی ٹیم پچاسویں اوور میں صرف 210 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی لیکن آسٹریلوی ٹیم نے ایک مشکل مقابلے کے بعد 50 ویں اوور کی دوسری گیند پراس ہدف کو عبور کرلیا جبکہ اُس کے آٹھ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔

عالمی کپ مقابلوں میں دونوں ٹیموں کے مابین سات میچ کھیلے جاچکے ہیں جن میں سے چار آسٹریلوی جبکہ تین پاکستانی ٹیم نے جیتے ہیں۔ دونوں کے درمیان فروری 2003ء کے عالمی کپ میں کھیلا جانے والا میچ آسٹریلیا نے باآسانی 82 رنز سے جیت لیا تھا۔ اس میچ میں آسٹریلیا کے 310 رنز کے جواب میں پاکستانی ٹیم 45 ویں اوور میں 228 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔