لاہور سے گرفتار ہونے والی لڑکی 'داعش سے وابستہ ہے'

فائل فوٹو

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوئی۔

پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک میں شدت پسند گروپ داعش کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے تاہم گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ایسا واقعہ منظر عام پر آیا ہے جو ملک کے سکیورٹی اداروں کے لئے بھی بظاہر تشویش کا باعث ہے۔

ہفتہ کو لاہور شہر میں سکیورٹی اداروں کی طرف سے کی جانے والی ایک کارروائی کے دوران ایک نوجوان لڑکی سمیت دو افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر شام و عراق میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد ایسٹر کے موقع پر لاہور میں دہشت گرد حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

حراست میں لی گئی لڑکی کا نام نورین لغاری بتایا جاتا ہے جو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کی طالبہ ہے۔ دوسری طرف لڑکی کے والد عبدالجبار لغاری نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکام کے دعوؤں کو مسترد کیا اور کہا کہ ان کی بیٹی انتہا پسند سوچ کی حامل نہیں تھی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیار کرتی۔

ادھر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوئی۔

" معلوم یہ ہوتا ہے یا میرا گمان ہے کہ یہ لڑکی بھی اسی طرح سوشل میڈیا یا نیٹ کے ذریعے اس کا ان (شدت پسندوں) کے ساتھ تعلق ہوا اور وہ متاثر ہو گئی اور گھر سے چلی گئی گھر والوں کو پتہ نہیں چلا وہ کہتے رہے کہ اس کو کسی نے اغوا کر لیا ہے اور پھر یہ وہاں (عراق و شام) سے جا کر وہاں سے واپس آئی ہے اور واپس آ کر ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔"

پاکستان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی شہری داعش اور داعش مخالف قوتوں میں شام ہونے کے لئے شام و عراق گئے تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ملک سے باہر جانے والے ایسے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

سکیورٹی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ ملک بھر میں ہونے والے سکیورٹی آپریشینز کی وجہ سے ناصرف داعش کے حامیوں بلکہ دیگر عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے۔

" ہمارے جو لوگ خاص طور پر بعض نوجوان اس سے متاثر ہورہے تھے لیکن خاص طور پر گزشتہ چند ہفتوں سے موصل ان (داعش) کے ہاتھ سے آہستہ آہستہ نکل رہا ہے تو یہ ان کے لئے بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور میرے خیال میں ہمارے ہاں سے جانے والوں کی تعداد میں کمی واقع آئی ہے۔"

تاہم انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے شدت پسندی کی طرف راغب ہونے والوں کو روکنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

"والدین کو بھی ہر وقت اپنے بچوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے تاکہ یہ (داعش کا) پروپیگنڈا ہمارے نوجوانوں کو متاثر نا کر سکے۔"

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ’داعش‘ پاکستان اور افغانستان سے نوجوانوں کو بھرتی کرنا چاہتی ہے۔

تاہم پاکستانی حکام متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ داعش کی ملک میں کوئی منظم موجودگی نہیں ہے اور وہ کسی بھی شدت پسند گروپ کی طرف سے لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے عزم پر قائم ہیں۔