پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فوجی کارروائی کے مقصد اور نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن کا نام تجویز کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف تازہ فوجی آپریشن کا نام پیغمبر اسلام کی تلوار ’عضب‘ سے منسوب کیا گیا ہے۔
’ضرب‘ کے معنی چوٹ یا وار ہے جب کہ عضب کے معنی ہیں ’تیز دھار‘۔
2009ء میں وادی سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع میں ’راہ راست‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا جب کہ اسی سال جنوبی وزیرستان میں ’راہ نجات‘ کے نام سے کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
سابق اعلیٰ عسکری عہدیداروں اور مذہبی شخصیات کے مطابق فوجی کارروائی سے قبل نام کا انتخاب اہم ہوتا ہے۔
مذہبی رہنماؤں کی ایک تنظیم پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں (ضرب عضب) کی وضاحت کچھ یوں کی۔
’’اس کی نسبت کی جا رہی ہے (پیغمبر اسلام) کی تلوار کے ساتھ، جو جنگ بدر میں آپ کے پاس تھی اور جنگ بدر مسلمانوں کی پہلی فتح تھی اور یہ بہت بڑی فتح تھی اس کا ایک معنیٰ یہ بھی لیا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے تیز دھار‘‘۔
پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فوجی کارروائی کے مقصد اور نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن کا نام تجویز کیا جاتا ہے۔
’’مثال کے طور پر یہ نام جو (پیغمبر اسلام) کی تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے یہ پیغام دیتا ہے کہ جو اسلام کا نام لے کر اس کو ایک قسم کا بدنام کرتے ہیں اور وہ جو کارروائیاں کر رہے ہوتے ہیں، میں دہشت گردوں کی بات کر رہا ہوں، اُن کے خلاف یہ کارروائی ہے۔‘‘
راشد قریشی نے بتایا کہ عموماً ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ جسے اُن کے بقول فوج کا دماغ کہا جاتا ہے وہاں سے یہ نام تجویز کیا جاتا ہے۔
’’ملٹری آپریشن کی جو ڈائریکٹوریٹ ہے عام طور پر وہاں سے (نام) تجویز کیا جاتا ہے جہاں پر آپریشن کی تیاری کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں (اعلیٰ عسکری قیادت اور کور کمانڈروں کے درمیان اس نام پر مشاورت ہوئی ہو گی) لیکن یہ یونٹ، بٹالین اور بریگیڈ کی سطح پر نہیں کی جاتی کہ (آپریشن کا کیا) نام ہونا چاہیئے۔ یہ (مشاورت) صرف جی ایچ کیو کی سطح پر ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان فوج کے سابق ترجمان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا نام میدان جنگ میں موجود افسروں اور سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سوچ سمجھ کر رکھا جاتا ہے۔
’اس (نام) کی اہمیت ضرور ہوتی ہے، کیوں کہ اس کا مقصد کم از کم سپاہیوں اور افسروں کی سطح تک پہنچانا اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بڑا سوچ کے نام رکھا جاتا ہے۔‘‘
فوج سے منسلک عہدیداروں کا ماننا ہے کہ مذہب سے منسوب کسی بھی کارروائی کا نام رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصروف جوانوں اور افسروں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ ’حق پر مبنی‘ جنگ کر رہے ہیں۔
’ضرب‘ کے معنی چوٹ یا وار ہے جب کہ عضب کے معنی ہیں ’تیز دھار‘۔
2009ء میں وادی سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع میں ’راہ راست‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا جب کہ اسی سال جنوبی وزیرستان میں ’راہ نجات‘ کے نام سے کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
سابق اعلیٰ عسکری عہدیداروں اور مذہبی شخصیات کے مطابق فوجی کارروائی سے قبل نام کا انتخاب اہم ہوتا ہے۔
مذہبی رہنماؤں کی ایک تنظیم پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں (ضرب عضب) کی وضاحت کچھ یوں کی۔
’’اس کی نسبت کی جا رہی ہے (پیغمبر اسلام) کی تلوار کے ساتھ، جو جنگ بدر میں آپ کے پاس تھی اور جنگ بدر مسلمانوں کی پہلی فتح تھی اور یہ بہت بڑی فتح تھی اس کا ایک معنیٰ یہ بھی لیا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے تیز دھار‘‘۔
پاکستانی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فوجی کارروائی کے مقصد اور نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن کا نام تجویز کیا جاتا ہے۔
’’مثال کے طور پر یہ نام جو (پیغمبر اسلام) کی تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے یہ پیغام دیتا ہے کہ جو اسلام کا نام لے کر اس کو ایک قسم کا بدنام کرتے ہیں اور وہ جو کارروائیاں کر رہے ہوتے ہیں، میں دہشت گردوں کی بات کر رہا ہوں، اُن کے خلاف یہ کارروائی ہے۔‘‘
راشد قریشی نے بتایا کہ عموماً ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ جسے اُن کے بقول فوج کا دماغ کہا جاتا ہے وہاں سے یہ نام تجویز کیا جاتا ہے۔
’’ملٹری آپریشن کی جو ڈائریکٹوریٹ ہے عام طور پر وہاں سے (نام) تجویز کیا جاتا ہے جہاں پر آپریشن کی تیاری کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں (اعلیٰ عسکری قیادت اور کور کمانڈروں کے درمیان اس نام پر مشاورت ہوئی ہو گی) لیکن یہ یونٹ، بٹالین اور بریگیڈ کی سطح پر نہیں کی جاتی کہ (آپریشن کا کیا) نام ہونا چاہیئے۔ یہ (مشاورت) صرف جی ایچ کیو کی سطح پر ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان فوج کے سابق ترجمان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا نام میدان جنگ میں موجود افسروں اور سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سوچ سمجھ کر رکھا جاتا ہے۔
’اس (نام) کی اہمیت ضرور ہوتی ہے، کیوں کہ اس کا مقصد کم از کم سپاہیوں اور افسروں کی سطح تک پہنچانا اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بڑا سوچ کے نام رکھا جاتا ہے۔‘‘
فوج سے منسلک عہدیداروں کا ماننا ہے کہ مذہب سے منسوب کسی بھی کارروائی کا نام رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصروف جوانوں اور افسروں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ ’حق پر مبنی‘ جنگ کر رہے ہیں۔