پاکستان کی وزارت خزانہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کو ایک نیا سکیورٹی ڈویژن بنانے کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ نئے سکیورٹی ڈویژن کس مخصوص مقصد کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہفتے کو وزارت خزانہ میں فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔
اس اجلاس میں پاکستانی فوج کی مختلف ترقیاتی سکیموں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ایک نئے سکیورٹی ڈویژن کی تشکیل پر بات چیت کی گئی۔
بیان میں اسحٰق ڈار کے حوالے سے کہا گیا کہ حکومت سکیورٹی کے معاملات کو انتہائی اہمیت دیتی ہے اور انہوں نے ناصرف نئی ڈویژن بلکہ فوج کی ترقیاتی سکیموں کے لیے بھی فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔
اس وقت پاکستانی فوج افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جہاں شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔
تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد محفوظ نہیں جہاں دہشت گردوں سمیت لوگوں کی غیر قانونی نقل وحرکت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے داخلی سکیورٹی کے لیے بھی مزید سکیورٹی فورس کی ضرورت ہے۔
’’فورسز کی ساخت اور ان کا حجم پاکستان کی بقا اور سلامتی کو درپیش خطرے سے متناسب ہوتا ہے۔ اس وقت ابھی چونکہ بیرونی حملہ آور بھی ہیں، پراکسی جنگ بھی ہو رہی ہے۔ ملک میں ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں جیسے راحیل شریف صاحب نے کہا تو ان ساری چیزوں کے لیے ہم ان (سکیورٹی فورسز) میں اضافہ کر کے پاکستان کو امن کا گہوارا بنانا چاہتے ہیں۔ یہ عارضی ہے۔ جب حالات بہتر ہو جائیں گے انہیں ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
پاک فوج نے جون 2014ء سے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے۔ اس وقت سے اب تک فوج نے ملک کے شمالی علاقوں میں کی گئی فضائی کارروائیوں اور ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشنز میں ہزاروں مشتبہ شدت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تاہم پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے اور 29 دسمبر سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں چار مہلک حملے ہو چکے ہیں جن میں گزشتہ ماہ باچا خان یونیورسٹی پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ مردان میں قومی شناختی کارڈ جاری کرنے والے ادارے نادرا کے ایک مرکز، خیبر ایجنسی کے شہر جمرود میں سکیورٹی چیک پوسٹ اور کوئٹہ میں پولیو کے ایک مرکز کے قریب حملے کیے گئے جن میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔