12 'خطرناک دہشت گردوں' کی سزائے موت کی توثیق

فائل

پاک فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کے مطابق، ابتک 56 دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے، جبکہ 231 کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فورسز پر حملوں اور تعلیمی اداروں کی تباہی میں ملوث 12 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے، جبکہ دیگر چھ دہشتگردوں کو سزا دینے کی بھی توثیق کردی گئی ہے۔

پاک فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ابتک 56 دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے، جبکہ 231 کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ 13 کو آپریشن رد الفساد سے قبل، جبکہ 43 کو دوران آپریشن پھانسی پر لٹکایا گیا۔ 167 دہشتگردوں کو قید کی سزا جبکہ ایک کو ناکافی ثبوت پر بری کیا جاچکا ہے۔

جمعے کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سربراہ پاک آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ نے 12خطرناک دہشت گردوں کو سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔ ان دہشت گردوں کو خصوصی فوجی عدالتوں نے سزائیں سنائیں جب کہ 6 دہشت گردوں کو قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔ دہشت گرد فورسز پر حملوں اور تعلیمی اداروں کی تباہی میں ملوث تھے اور انہوں نے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیلوں پر بھی حملے کئے۔

دہشت گردوں نے مجموعی طور پر7 عام شہریوں اور 92 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید اور ان کےحملوں میں 58 افراد زخمی بھی ہوئے۔

سزائے موت پانے والوں میں غنی رحمان، عبدالغازی، ضیاالرحمان، محمد زبیر، عمر نواز، ساجد خان، ہیبت خان، باز محمد، مومین خان، سلیمان بہادر، جاوید خان شامل ہیں۔

عبدالغازی ولد سبیل خان لیفٹیننٹ کرنل یوسف اور دیگر جوانوں کے قتل میں ملوث تھا جب کہ ضیاالرحمان ولد پیرزادہ اور جاوید نور ولد نورزادہ ایس پی بنوں سمیت 7 اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا۔

غنی رحمان ولد فضل رحمان بنوں اور ڈی آئی خان جیل پر حملوں میں ملوث تھا اور اس کےدہشتگرد حملے میں کیپٹن فصیح سمیت 4 فوجی شہید جب کہ 12 زخمی ہوئے۔

2015 میں سپریم کورٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا۔ دہشتگرد کاروائیوں میں ملوث عناصر کا مقدمہ فوجی عدالت میں کیا جاتا ہے۔

فروری 2017 میں فوج کی طرف سے آپریشن ردالفساد کے نام سے ایک نئے آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے۔

پاکستان میں شدت پسند تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن ردالفساد کی وجہ سے ملک بھر میں عمومی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

تاہم، اس ماہ پاکستان میں الیکشن مہم کے دوران دو حملے ہوچکے ہیں اور افغانستان اور امریکہ الزام لگاتا رہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی قیادت تاحال پاکستان میں محفوظ ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملہ جس میں ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو قتل کیا گیا، حکومت نے پھانسی کی سزا پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم کردی تھی جس کے بعد اب تک کئی افراد کو پھانسیاں دی جاچکی ہیں۔