پاکستان میں مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو اعلی عدلیہ کے خلاف توہین آمیز مواد ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے غیر قانونی اور نقصان دہ آن لائن مواد کو ہٹانے کے لیے پی ٹی اے کی درخواستوں پر مؤثر اور فوری طور پر کارروائی کرے۔
پاکستان کی حکومت کو ٹوئٹر سے شکایت رہی ہے کہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ مقامی قوانین پر عمل نہیں کرتی۔
تاہم پاکستان کی ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیمیں پی ٹی اے کے اس اقدام کو مبہم اور نگران ادارے کے اختیارات سے تجاوز قرار دیتی ہیں۔
پی ٹی اے نے ٹوئٹر سے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے خلاف توہین آمیز 'ٹرینڈز اور ٹوئٹس' فوری طور پر ہٹائے جائیں اور ایسے اکاؤنٹس کو بلاک کیا جائے۔
پی ٹی اے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر کو خصوصی طور پر بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے مواد یا (ٹرینڈز) کی موجودگی آزادیٔ اظہار کی تعریف کے زمرے میں نہیں آتی لہٰذا اسے فوری طور پر ہٹایا جانا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پی ٹی اے نے یہ اقدام سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایات کے بعد اٹھایا ہے۔ اس سے قبل بھی پی ٹی اے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کئی بار نازیبا، توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد ہٹانے کی ہدایت کر چکا ہے۔
پی ٹی اے نے ٹوئٹر کو یہ بھی کہا کہ توہینِ عدالت سے متعلق مواد کا حذف کرنا اتھارٹی کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔
اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو معاونت و سہولت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے بشرطیکہ وہ ملکی قوانین پر عمل پیرا رہیں۔
پاکستان کی ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیمیں پی ٹی اے کے اس اقدام کو مبہم اور نگران ادارے کے اختیارات سے تجاوز قرار دیتی ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کی بانی فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ پی ٹی اے نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن چیزوں کو وہ عدلیہ کی توہین سمجھتے ہیں اور کون سا مواد ہٹانے کا کہا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ مواصلات کا نگران ادارہ یہ کہتا ہے کہ عدلیہ کے خلاف کچھ کہنا توہینِ عدالت ہے تو کیا توہینِ عدالت کا اختیار اب پی ٹی اے استعمال کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتی ہیں کہ پی ٹی اے یہ تعین نہیں کرسکتا کہ کون سی بات توہین عدالت یا ریاست مخالف ہے۔
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ اگر عدلیہ پر انفرادی حیثیت میں حملے کیے جاتے ہیں تو اس کا سدباب کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ قانون سے بالا تر نہیں، اگر عوام کو عدلیہ کے رویے یا فیصلوں پر تنقید کا حق نہیں تو پھر آئینِ پاکستان سے آزادیٔ اظہار رائے کی شقوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی مقدمے میں ایک نگران ادارے کو احکامات دے۔
حالیہ عرصے میں عدلیہ پر تنقید روکنے کے قوانین کا اطلاق کرنے میں ناکامی پر مواصلات کے نگراں ادارے کی متعدد عدالتوں میں سرزنش کی جا چکی ہے۔
پی ٹی اے نے تمام ٹیلی کام صارفین کو مفاد عامہ کے پیغامات بھی بھجوائے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف یا ایسا مواد جو توہینِ عدالت کا سبب بنے اسے انٹرنیت یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنا غیر قانونی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے گزشتہ سال نومبر میں ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے سوشل میڈیا قواعد نافذ کئے تھے جن پر ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیموں اور سوشل میڈیا کمپنیوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف، نظریاتی اساس اور ثقافتی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے۔
یہ سوشل میڈیا قواعد تاحال قانونی چارہ جوئی کے مرحلے میں ہیں۔