پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل تاریخی سیریز کا آغاز جمعے سے ہوگا۔ پاکستان کی سرزمین پر دونوں ٹیمیں 24 سال بعد مدِمقابل ہوں گی۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈز نے اس سیریز کو سابق آسٹریلوی لیگ اسپنر و کپتان رچی بینواور پاکستان کے سابق لیگ اسپنر عبدالقادر کے نام سے منسوب کیا ہے۔ یہ سیریز اب 'بینو قادر ٹرافی' کے نام سے جانی جائے گی جسے حاصل کرنے کے لیے دونوں ٹیمیں راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں جمعے کو ایکشن میں نظر آئیں گی۔
ٹیسٹ سیریز کو دو عظیم کھلاڑیوں سے منسوب کرنے پر دونوں ٹیموں کے کپتان بابر اعظم اور پیٹ کمنز نے خوشی کا اظہار کیا۔ بابر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ پر امید ہیں کہ شائقین کرکٹ کو بہترین مقابلے دیکھنے کو ملیں گے، بینو قادر ٹرافی میں پاکستان کی قیادت کرنا ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رہے کہ1959 میں رچی بینو کی قیادت میں آسٹریلیا نے پاکستان کا پہلا مکمل دورہ کیا تھا جس میں مہمان ٹیم کو دو صفر سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان کے جادوئی لیگ اسپنر عبدالقادر نے 1977 سے 1990 کے درمیان آسٹریلیا کے خلاف 11 ٹیسٹ میچز میں 45 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
تین میچز کی ٹیسٹ سیریزکا پہلا ٹیسٹ چار مارچ سے راولپنڈی ، دوسرا ٹیسٹ 12 مارچ سے کراچی اور تیسرا 21 مارچ سے لاہور میں شروع ہوگا۔ ٹیسٹ سیریز کے بعد دونوں ٹیمیں راولپنڈی میں تین ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں مدِمقابل ہوں گی۔
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان ٹیم کن کھلاڑیوں پر انحصار کرے گی؟
پاکستان کے اسکواڈ میں شامل کئی بڑے نام آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ نہیں کھیل سکیں گے۔فاسٹ بالر حارث رؤف کرونا کا شکار ہونے کے بعد قرنطینہ میں ہیں جن کی جگہ نسیم شاہ کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح عابد علی، حسن علی اور فہیم اشرف انجری کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہیں۔امکان ہے کہ عابد علی کی جگہ شان مسعود، فہیم اشرف کی جگہ محمد وسیم جونئیر اور حسن علی و حارث روؤف کی جگہ نسیم شاہ فائنل الیون کا حصہ ہوں گے۔
اگر نسیم شاہ فائنل الیون میں شامل ہوئے تو اسی گراؤنڈ پر کم بیک کریں گے جہاں انہوں نے دو سال قبل بنگلہ دیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کی تھی۔
امکان ہے کہ بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں ڈیبیو کرنے والے عبداللہ شفیق شان مسعود کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے، ورنہ یہ ذمہ داری امام الحق کو بھی سونپی جاسکتی ہے۔ سابق کپتان اظہر علی، کپتان بابر اعظم اور فواد عالم مڈل آرڈر کو اسی طرح سہار ادیں گے جیسے کہ گزشتہ دو سال سے دے رہے ہیں۔
وکٹ کیپر محمد رضوان جن کا شمار پاکستان کے ہی نہیں، دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، وہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ وکٹ کے محافظ کے طور پر ایکشن میں نظر آئیں گے۔ فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی بالنگ اٹیک کو لیڈ کریں گے جس کا حصہ نسیم شاہ یاوسیم جونئیر بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے دو اسپنرز کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیا تو امید ہے کہ نعمان علی اور ساجد خان اسپن اٹیک کا حصہ ہوں گے۔
کیا پیٹ کمنز کی آسٹریلوی ٹیم کامیابی کے تسلسل کو جاری رکھے گی؟
چوبیس سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کے لیے پاکستان نیا ضرور ہے، لیکن ان 24 برسوں میں دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف نیوٹرل مقامات پر کئی میچز کھیلے ہیں۔
مہمان کھلاڑی کوچنگ اسٹاف کے ہمراہ پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریکٹس میں مصروف ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ ایشز کی طرح اس سیریز میں بھی کامیابی سمیٹیں۔
امکان ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم انہی کھلاڑیوں پر انحصار کرے گی جنہوں نے جنوری میں انگلینڈ کے خلاف ایشز سیریز میں پرفارم کیا تھا۔ ڈیوڈ وارنر اور عثمان خواجہ بطور اوپنر ایکشن میں نظر آسکتے ہیں۔ اگر عثمان خواجہ کو نچلے نمبر پر کھلایا گیا تو اوپننگ کا قرعہ مارکس ہیرس کے نام بھی نکل سکتا ہے۔
مڈل آرڈر میں آسٹریلیا کے پاس مارنس لبوشین، اسٹیون اسمتھ اور ٹریوس ہیڈ جیسے ان فارم بلے باز ہیں جنہیں آؤٹ کرنے کےلیے پاکستانی بالرز کو سخت محنت کرنا ہوگی۔
نوجوان کھلاڑی کیمرون گرین بطور آل راؤنڈر جب کہ ایلکس کیری وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دیں گے۔ کپتان پیٹ کمنز ٹیم کے ساتھ ساتھ بالنگ اٹیک کو بھی لیڈ کریں گے، جس کا حصہ فاسٹ بالرز مچل اسٹارک اور جوش ہیزل وڈ سسمیت آف اسپنر نیتھن لائن بھی ہوں گے۔
اگر آسٹریلیا نے دو اسپنرز کو کھلانے کی ضرورت محسوس کی تو لیفٹ آرم اسپنر ایشٹن ایگر یا لیگ اسپنر مچل سویپسن کو کیمرون گرین کی جگہ کھلایا جاسکتا ہے۔
آسٹریلیا نے پاکستان کی سرزمین پر 20 ٹیسٹ کھیلے، 3 میں اسے کامیابی ملی
آسٹریلیا کی ٹیم آٹھ مرتبہ پاکستان کے دورے پر آ چکی ہے جس میں 1959 میں اور 1998 میں ہونے والی دونوں سیریز آسٹریلوی ٹیم کے نام رہیں۔ساٹھ کی دہائی میں ہونے والی واحد ٹیسٹ سیریز ڈرا ہوئی جب کہ باقی پانچوں سیریز پاکستان کے نام رہیں۔
مجموعی طور پر دونوں ٹیموں نے پاکستان میں 20 میچز کھیلے، جس میں پاکستان نے سات اور آسٹریلیا نے تین میں کامیابی حاصل کی۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا آغاز 1956 میں اس وقت ہو ا تھا جب ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے آسٹریلوی ٹیم پاکستان آئی تھی۔ اس وقت آسٹریلیا کی ٹیم سب سے پرانی اور پاکستان کی ٹیم کو انٹرنیشنل اسٹیٹس حاصل ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے۔
کراچی میں اکتوبر 1956 میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے مہمان ٹیم کو نو وکٹ سے شکست دی ۔ فاسٹ بالر فضل محمود نے میچ کی پہلی اننگز میں چھ اور دوسری اننگز میں سات وکٹیں حاصل کیں،۔ان کی میچ میں مجموعی طور پر 13 وکٹوں کی وجہ سے پاکستان نے یہ تاریخی کامیابی حاصل کی۔
پاکستان میں ہونے والی اگلی دو سیریز میں دو نئے ریکارڈز بنے۔ 1959 میں لیگ اسپنر انتخاب عالم نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی ہی گیند پر آسٹریلوی اوپنر کولن مک ڈونلڈ کو بولڈ کرکے وکٹ حاصل کی، تو 1964 میں خالد عباداللہ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی میچ میں سینچری اسکور کرنے والے کھلاڑی بن گئے۔
چوبیسس سال قبل جب آسٹریلوی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت کے کپتان مارک ٹیلر نے پشاور میں 334 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر سر ڈان بریڈمین کا ریکارڈ برابر کیا تھا۔