پاکستان کے وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر نگرانی کا ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
انسداد منشیات کی کوششوں میں نوجوانوں کے کردار پر اسلام آباد میں بدھ کو ایک سیمینار سے خطاب میں بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو پوست کی کاشت سے پاک ملک قرار دیا جا چکا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اب بھی دوسرے ممالک خاص طور پر ہمسایہ ملک افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کو روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
اس سیمینار کا اہتمام امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے والی نوجوانوں کے گروپ ’’پاکستان یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک‘‘، امریکی سفارت خانے اور وزارت داخلہ نے مشترکہ طور پر کیا۔
بلیغ الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں منشیات کا ایک بڑا حصہ پاکستان ہی کے راستے دیگر ممالک میں اسمگل کیا جاتا ہے جس میں اچھی خاصی مقدار پاکستان میں استعمال ہو جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
"منشیات کی اسمگلنگ جب ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان سے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے یا دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے جیسا کہ آج کل ایکسٹیسی اور مختلف قسم کی ایسی منشیات ہیں جو مصنوعی ہیں اور ان میں جو مواد استعمال ہوتا ہے وہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائے جا رہے ہیں تو ان کا یہاں آنا اور یہاں سے (دوسرے ممالک) برآمد ہونا اور یہاں استعمال ہونا وہ ایک چیلنج ہے اور اسے روکنے کی کوشش کی گئی ہے اور مربوط بارڈر کنڑول کو زیادہ مضبوط کیا گیا ہے جس سے اس سے بہتر نتائج آ رہے ہیں"۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے باعث منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خاتمے میں بھی مدد مل رہی ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی کہا کہ انسداد منشیات کی کوششوں میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہے۔
واضح رہے کہ طویل عرصے سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ اور اس غیر قانونی کاروبار سے حاصل ہونے والا پیسہ پاکستان میں شدت پسندی و بدامنی جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہو۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی طرف سے گزشتہ سال پاکستان سے متعلق پہلی جائزہ رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً 70 لاکھ ہے جن میں نصف سے زیادہ افراد ہیروئن، چرس اور دیگر منشیات کے عادی ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی منشیات کو قبضے میں لینے سے متعلق ملک کے متعلقہ اداروں کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔
تاہم ماہرین اور سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب تک یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں افغانستان میں بننے والی منشیات کی طلب کم نہیں کی جاتی یہ کارروائیاں زیادہ سود مند نہیں ہو سکتیں۔