پاکستان میں چار ماہ میں 100 پھانسیاں باعث تشویش: ایمنسٹی انٹرنیشنل

فائل فوٹو

پارلیمانی سیکرٹری برائے امور داخلہ مریم اورنگزیب نے پھانسیوں پر عملدرآمد کی مخالفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ گزشتہ دسمبر میں پھانسیوں پر سے پابندی ہٹائے جانے کے بعد سے اب تک پاکستان میں 100 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے اور یوں پاکستان تیزی سے دنیا میں ایک ایسے ملک کا تصور اپناتا جا رہا ہے جہاں سزائے موت پر سب سے زیادہ عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

منگل کو تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اسے پاکستان کے لیے ایک "شرمناک سنگ میل" قرار دیا گیا۔

گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں پھانسیوں پر چھ سال سے عائد پابندی ختم کر دی تھی اور اس فیصلے کی انسانی حقوق کی تنظیمیں مذمت کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔

اولاً پابندی کے خاتمے کا اطلاق صرف دہشت گردی کے جرائم میں سزائے موت پانے والوں پر ہوا تھا لیکن گزشتہ ماہ کسی بھی جرم میں موت کی سزا پانے والے ایسے مجرم جن کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں انھیں بھی پھانسی دینے کا کہا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیا پیسیفک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ گرفتھس نے بیان میں کہا کہ حالیہ ہفتوں میں پھانسیاں دیے جانے میں تشویشناک حد تک تیزی آئی ہے اور اب تقریباً یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ان کے بقول اگر حکومت فوری طور پر پھانسیوں پر دوبارہ پابندی عائد نہیں کرتی تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سال اور کتنے لوگ تختہ دار پر لٹکائے جائیں گے۔

تنظیم کے عہدیدار نے مزید کہا کہ قتل اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم سراسر غلط ہیں لیکن انصاف کے نام پر لوگوں کو مار دینا، خاص طور پر ملکی دفاع کے لیے ایسا کرنا مناسب طریقہ نہیں۔

ان کے بقول پھانسیوں کا جرائم اور دہشت گردی کے اسباب پر توجہ دینے سے کوئی تعلق نہیں لہذا یہ سلسلہ فوری طور پر بند کیا جانا چاہیئے۔

تاہم حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں رائج قوانین کے مطابق دی جانے والی سزاؤں پر عملدرآمد پاکستان کو درپیش مخصوص حالات میں ناگزیر ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے امور داخلہ مریم اورنگزیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پھانسیوں پر عملدرآمد کی مخالفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جن حالات کا سامنا ہے اس سے کسی اور نے نہیں بلکہ اسے خود نمٹنا ہے۔

"سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول حکومت کو ان حالات کا مقابلہ کرنا ہے، اُس وقت یہ سروے والے یہ تنظیمیں کہیں نہیں ہوتیں، تو میرا خیال ہے کہ اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ قومی لائحہ عمل کے جو اشاریے ہیں وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ان (اقدامات) کی وجہ سے نہ صرف دہشت گردی بلکہ علاقوں میں امن و امان بھی بہتر ہوا ہے۔"

ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے شکار ملک پاکستان کی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کی مشاورت سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی حکمت عملی وضع کی جس کے تحت پورے ملک میں شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کارروائیوں کے بعد سے ماضی کی نسبت ملک میں امن و امان کی صورتحال میں قدرے بہتری دیکھی جا رہی ہے۔