'عدم اعتماد کو دور کیے بغیر داعش کے خلاف کارروائی موثر نہیں ہوگی'

پاک افغان سرحدی علاقہ (فائل فوٹو)

پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے فوجی عہدیداروں نے شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا، ان کے افغان ہم منصب میجر جنرل حبیب حصاری اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی نائب سربراہ میجر جنرل کرسٹوفر ہاس نے شرکت کی۔

تینوں اعلیٰ عہدیداروں نے شدت پسندوں کے خلاف اپنے آپریشنز میں مشترکہ کوششوں کے ذریعے داعش کے خلاف کارروائی پر زور دیا۔

مشرق وسطیٰ میں سرگرم تنظیم داعش نے افغانستان کے خاص طور پر پاکستان سے ملحقہ مشرقی سرحدی علاقوں میں اپنے قدم جما رکھے ہیں جب کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں داعش سے ہمدردی رکھنے والے عناصر کی موجودگی کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔

داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پہلے بھی مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ لیکن پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات اور اپنی اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے دینے کی اجازت کے الزامات کے باعث اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ سکی۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واضح اشارے موجود ہیں کہ یہ شدت پسند تنظیم خطے میں قدم جمانے کی کوششیں کر رہی ہے جو کہ یہاں امریکی مفادات کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔

پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے عسکری حکام کی طرف سے اس خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹنے پر اتفاق کو ڈاکٹر چیمہ خوش آئند تو قرار دیتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کیے بغیر ایسی کسی کوشش کے حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

پاکستانی فوج کے مطابق تینوں حکام کی ملاقات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کی دوطرفہ ملاقات بھی ہوئی جس میں سرحدی کشیدگی میں کمی اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔