اجلاس میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی کے لیے تعاون کو بہتر بنانے پر بات چیت کی گئی۔
اسلام آباد —
پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے عسکری عہدیداروں کا سہ فریقی اجلاس ہفتہ کو راولپنڈی میں ہوا جس میں پاک افغان سرحد پر تعاون بڑھانے اور نگرانی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ، افغان نیشنل آرمی کے چیف آف جنرل اسٹاف شیر محمد کریمی اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی شریک تھے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اجلاس میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی کے لیے تعاون کو بہتر بنانے پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر اکثر و بیشتر ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں جو دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتے ہیں۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے آئندہ سال کے اواخر تک ملک سے انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے اور اس سے قبل ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کو منتقل کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
مبصرین پڑوسی ملک میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور مقامی سکیورٹی فورسز کی ان سے نمٹنے کی استعداد کار کے تناظر میں پاکستان میں امن و سلامتی کی صورتحال سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھی بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ان کے ملک کے مفاد میں ہے۔
اس ضمن میں طویل افغان سرحد پر نگرانی کو مزید مؤثر بنانے اور ممکنہ دراندازی کے تدارک کے لیے ایسے اجلاس تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔
دریں اثناء وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مرکزی حکومت تمام صوبوں کے ساتھ تعاون کرے گی۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’’تمام صوبوں کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے کو موثر بنایا جائے گا اور صوبوں کو اگر فیڈرل فورس کی ضرورت پڑے گی تو وہ بھی مہیا کی جائے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے وہ اپنی وزارت میں تمام متعلقہ اداروں کا ایک اجلاس طلب کریں گے جس میں ملک میں سلامتی کی صورتحال اور اس میں بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات زیر غور آئیں گے۔
اجلاس میں افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ، افغان نیشنل آرمی کے چیف آف جنرل اسٹاف شیر محمد کریمی اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی شریک تھے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اجلاس میں باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی کے لیے تعاون کو بہتر بنانے پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر اکثر و بیشتر ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں جو دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتے ہیں۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے آئندہ سال کے اواخر تک ملک سے انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے اور اس سے قبل ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کو منتقل کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
مبصرین پڑوسی ملک میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور مقامی سکیورٹی فورسز کی ان سے نمٹنے کی استعداد کار کے تناظر میں پاکستان میں امن و سلامتی کی صورتحال سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھی بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ان کے ملک کے مفاد میں ہے۔
اس ضمن میں طویل افغان سرحد پر نگرانی کو مزید مؤثر بنانے اور ممکنہ دراندازی کے تدارک کے لیے ایسے اجلاس تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔
دریں اثناء وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مرکزی حکومت تمام صوبوں کے ساتھ تعاون کرے گی۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’’تمام صوبوں کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے کو موثر بنایا جائے گا اور صوبوں کو اگر فیڈرل فورس کی ضرورت پڑے گی تو وہ بھی مہیا کی جائے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے وہ اپنی وزارت میں تمام متعلقہ اداروں کا ایک اجلاس طلب کریں گے جس میں ملک میں سلامتی کی صورتحال اور اس میں بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات زیر غور آئیں گے۔