پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے افغان صدر کی جانب سے افغانستان کے شہر غزنی پر حال ہی میں طالبان کے حملے میں ملوث جنگجووں کے پاکستان میں علاج معالجے کے الزامات سختی سے مسترد کردیے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے 'آئی ایس پی آر' کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے اس مؤقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو پاکستان کی جانب سے کسی قسم کی حمایت نہیں مل رہی۔
آرمی چیف افغان صدر اشرف غنی کے اس مبینہ الزام کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ غزنی پر حالیہ دہشت گرد حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے کئی طالبان واپس پاکستان گئے ہیں۔
فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں بہت سے پاکستانی مختلف کاروبار اور محنت مزوری کرتے ہیں جو وقتاً فوقتاً فغان سرحد کے اندر دہشت گردی کا ہدف بن جاتے ہیں اور علاج معالجے کے لیے اپنے وطن واپس آتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے بقول ایسے افراد کو دہشت گرد قرار دینا افسوس ناک ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑوں نے افغان شناخت اختیار کر کے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بیمار یا ہلاک ہو جاتا ہے تو اسے پاکستان پہنچا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح افغان پناہ گزین اور ان کے رشتے دار بھی بیماری وغیرہ کی صورت حال میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کے سربراہ افغان صدر کے ساتھ اپنے اس عہد پر قائم ہیں کہ وہ افغانستان میں امن لانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر پھر زور دیا کہ افغان حکومت کو اپنے ملک کے اندر دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ افغانستان کے اندر موجود ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن لانے کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے کیونکہ خطے اور پاکستان کا امن و استحکام افغانستان میں امن کے ساتھ جڑا ہے۔
دریں اثنا پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی غزنی حملے میں ملوث جنگجووں کے پاکستان میں علاج کے الزامات کی تردید کی ہے۔
اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ زخمی طالبان جنگجووں کو پاکستانی اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں نہیں دی گئیں اور افغانستان نے اس حوالے سے تاحال کوئی معلومات یا شواہد پاکستان کو فراہم نہیں کیے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے درمیان منقطع رابطوں کے باعث اس طرح کی اطلاعات کو اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
ترجمان کے بقول افغانستان کی جانب سے اس قسم کے بیانات محض من گھڑت اور پروپیگنڈا ہیں جن سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوں گے۔