پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے پیر کو تصدیق کی کہ افغان طالبان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، لیکن اس بارے میں اُنھوں نے مزید تفصیلات بتانے سے معذرت کی۔
رواں ہفتے یہ خبر سامنے آئی کہ افغان طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے تین رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔
ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق طالبان کے وفد کے دورہ پاکستان کا مقصد قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت سے متعلق پاکستانی حکام کو آگاہ کرنا تھا۔
لیکن طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کی طرف سے کہا گیا کہ اس دورے کا مقصد طالبان کے کئی سینیئر راہنماؤں کی گرفتاری، افغان مہاجرین کے لیے بعض دینی مدارس کی بندش اور پناہ گزینوں کے لیے ’’بڑھتے ہوئے مسائل‘‘ پر بات کرنا ہے۔
سرتاج عزیز نے پیر کو پہلی مرتبہ افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔
’’یہ ہمیں علم تو ہے، بات یہ ہے کہ ان کا وفد آیا اور اس کی تفصیل بھی اخباروں میں آ چکی ہے لیکن اس کی تفصیل بتانا کہ کیا بات ہوئی ہے وہ میرا خیال ہےکہ مناسب نہیں ہے ۔۔۔۔ جیسے آپ کو معلوم ہے (چار ملکی گروپ) پاکستان، امریکہ، چین اور افغانستان ہیں اور ہم چاروں اپنے اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں طالبان سے رابطہ کیا جائے۔۔۔ مذاکرات تو بالآخر افغانستان اور افغان طالبان کے درمیان ہی ہوں گے تو ہم نے اس پر ابھی تک کوششیں کی ہیں ایک میٹنگ کچھ دن پہلے قطر میں ہوئی تھی ۔۔۔۔ ہماری کوشش جاری رہے گی۔‘‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ دسمبر میں بھارت میں ہونے والی ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں پاکستان بھی شرکت کرے گا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے پاکستان، امریکہ، چین اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی گروپ کے تحت کوششیں جاری رہیں گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ افغان حکومت اور ایک عسکریت پسند گروپ 'حزب اسلامی' کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت گلبدین حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی کو ملک میں مکمل سیاسی حقوق حاصل ہو جائیں گے۔
پاکستان افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے امن سمجھوتے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ اس معاہدے کو بنیاد بنا کر دیگر عسکریت پسند گروہوں سے بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔