2018 پاک افغان تعلقات کے لیے کیسا رہا؟

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان ہمیشہ سے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا دونوں ملکوں کے لیے چیلنج رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں اور افغان امن و مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کی طرف سے کی جانے والی مثبت کوششوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔

افغان امور کے ماہر سعد محمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح 2018 میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اتار چڑہاؤ کا شکار رہے ہیں۔ تاہم رواں سال اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے سفارتی اور عسکری رابطوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سخت بیانات کے تبادلے میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوے سعد محمد کا کہنا تھا کہ مئی 2018 میں پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی کے فریم ورک پر اتفاق کرنا دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں اہم پیش رفت تھی گو کہ اس فریم ورک کے تحت کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی، تاہم ان کے بقول یہ ایسا فریم ورک ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے لیے ایک طریقہ کار وضح کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد اور کابل نے 'افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی' کے فریم ورک کے تحت انسدادِ دہشت گردی، امن و مصالحت، پناہ گزینوں کی واپسی، مشترکہ اقتصادی ترقی اور سرحد کی نگرانی سے متعلق معاملات پر بات چیت کا طریقہ کار وضع کیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ افغانستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم چیلنج رہا ہے اور پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کابل کے ساتھ اعتماد کے فقدان کو کم کیا جائے تاہم ان کے بقول رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن بعد ازاں ان میں بتدریج بہتری دیکھی گئی ہے۔

طفر جسپال کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات افغانستان کی صورت حال سے جڑے ہوئے ہیں اور حال ہی میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل کے تعلقات پر بھی مثبت اثر پڑا ہے۔

پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے اور امریکہ سے بات چیت کے لیے راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ رابطے 2018 کے آخری مہینے میں ہوئے ہیں اور آئندہ سال اس میں مزید پیش رفت ہو سکتی ہے۔

ظفر جسپال نے مزید کہا کہ "جب ہم 2019 میں داخل ہوں گے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2018 میں پاکستان اور افغانستان اعتماد کے فقدان کو بہت حد تک کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔"

یاد رہے کہ دسمبر میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان کے درمیان ابوظہبی میں بات چیت ہوئی جس میں پاکستان سعودی عرب اور میزبان ملک کے نمائندے بھی شریک ہوئے جن میں افغان امن مصالحت، افغانستان میں نگران حکومت اور جنگ بندی کے معاملات پرتبادلہ خیال ہوا۔

امریکہ کی جانب سے امن مذاکرات میں تیزی رواں سال ستمبر سے آئی ہے۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق سفارت کار زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں مفاہمت کے لیے اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا تھا۔

خلیل زاد آئندہ سال اپریل میں افغان صداراتی انتخابات سے قبل افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے کی امید کا اظہار کر چکے ہیں۔ سعد محمد کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ رابطوں سے افغان امن و مصالحت کے لیے مثبت اشار ے ملے ہیں۔

پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان اور خطے کے امن کے لیے ضروری ہے۔ افغان امور کے ماہر اور صحافی مشتاق یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغانستان کا امن کابل اور اسلام آباد دونوں کے لیے ضروری ہے اور اب عوامی سطح پر یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ دنوں ملک اپنے باہمی معاملات بات چیت سے حل کر سکتے ہیں۔