پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے حساس مقامات پر 900 کلومیٹر آہنی باڑ نصب کر دی ہے جس کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کی سرحد کے آر پار آمد و رفت روکنا ہے۔
آہنی باڑ پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد فوج نے صحافیوں کے ایک گروپ کو شمالی وزیرستان کے ایک سرحدی دیہات غلام خان کا دورہ کرایا اور انہیں فولادی باڑ دکھائی۔
فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ایک سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر کرنل فاروق احمد کہتے ہیں کہ 2000 ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں باڑ لگانا انتہائی جان جوکھوں کا کام تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ باڑ مخصوص جگہوں پر لگائی گئی ہے جو غیر روایتی گزرگاہیں ہیں اور جہاں سرحد کے دونوں طرف آبادیاں ہیں۔
فوج کے سابق عہدے دار کہتے ہیں کہ اس باڑ کو برطانوی دور کے قلعوں کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور ان پر نگرانی کے لیے کیمرے اور سینسر لگائے جا رہے ہیں۔
کرنل فاروق کا کہنا تھاکہ افغانستان کو یہ دیرینہ شکایت رہی ہے کہ سرحد پار سے آ کر لوگ ان کے ملک پر حملہ کرتے ہیں، جو ان کے ملک کی سلامتی اور معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ فولادی باڑ کی تنصیب سے ان کی شکایت کا ازالہ کرنے میں مدد ملے گی۔
قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی سیلاب محسود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے چترال سے لے کر چمن تک سرحد کو باڑ کے ذریعے محفوظ بنانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ درمیان میں ہزاروں خفیہ راستے ہیں، جن میں ندی نالے، پہاڑی چوٹیاں اور گھاٹیاں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باڑ لگنے کے بعد جنوبی وزیرستان میں لوگوں نے کئی جگہوں پر خار دار باڑ میں چھید کرنے کے بعد سرحد کے آر پار آنا جانا شروع کر دیا ہے۔
سیلاب محسود کے اس موقف پر کہ اب مقامی لوگوں کو، جن کی سرحد پار رشتے داریاں اور تعلقات ہیں، باڑ لگنے سے میل ملاپ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، کرنل فاروق نے کہا ہے کہ باڑ لگاتے وقت، مقامی آبادیوں اور ان کے رہنماؤں کے مشوروں کو ملحوظ رکھا گیا اور ہر مرحلے پر ان کا تعاون حاصل کیا گیا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5