پاکستان میں افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی نے ’داعش‘ کے خلاف علاقائی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لائحہ عمل سے متعلق اسلام آباد میں بدھ کو ایک کانفرنس سے خطاب میں افغان سفیر نے کہا کہ دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کے خلاف کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اُن کے بقول ’’دشمن‘‘ ہمارا انتظار نہیں کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس خطے میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق عناصر اب افغانستان کی سرحد کی جانب ’داعش‘ کے سیاہ جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جانان موسی زئی کا کہنا تھا کہ ’داعش‘ سے وابستہ جنگجو افغانستان کے صوبے ننگرہار میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اُن کے بقول ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
شدت پسند گروپ ’داعش‘ عراق اور شام میں سرگرم ہے، جہاں اس نے وسیع علاقے میں قبضہ کر رکھا ہے، امریکہ کی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کی طرف سے ’داعش‘ کے خلاف شام اور عراق میں کارروائیاں جاری ہیں۔
سفیر جانان موسیٰ زئی کا کہنا تھا کہ ’داعش‘ اپنا پروپیگنڈہ اور اپنا نکتہ نظر اس خطے بشمول پاکستان میں پھیلا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں کے باعث یہ علاقہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران بہت متاثر رہا ہے اور اُن کے بقول اگر ہم مزید ایک دہائی تک ان عناصر سے نہیں لڑنا چاہتے تو ہمیں فوراً فیصلہ کرنا ہو گا۔
افغانستان کے سفیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پالیسی اور حکمت عملی دونوں پر غور ضروری ہے۔
حالیہ مہینوں میں داعش نے کئی افغان جنگجوؤں کو اپنی طرف راغب کیا ہے اور افغانستان میں اپنی جگہ بنائی ہے، جس سے افغان طالبان کے اثرورسوخ میں بظاہر کمی آئی ہے۔
افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں موجود ’داعش‘ کے جنگجوؤں اور طالبان کے درمیان لڑائی کی اطلاعات بھی ملتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ’داعش‘ سے تعلق رکھنے والے کئی مشتبہ جنگجو افغانستان میں ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بھی کئی شدت پسندوں کی طرف سے ’داعش‘ میں شمولیت کا اعلان کیا گیا تھا۔
پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ’داعش‘ کا ملک میں کوئی وجود نہیں البتہ متعلقہ ادارے اس شدت پسند گروپ کے خطرے سے آگاہ ہیں۔
پاکستان کے کئی شہروں میں حالیہ مہینوں میں ’داعش‘ کے حق میں دیواروں پر تحریروں کے علاوہ اس تنظیم کا تشہری مواد بھی تقسیم کیا گیا، لیکن پاکستانی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم کا ملک میں کوئی ڈھانچہ موجود نہیں۔
حکام کے بقول ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کے بعد پسپا ہونے والے عناصر پناہ کے لیے ’داعش‘ میں شامل ہو رہے ہیں۔