افغانستان میں قیام امن، بین الافغان مذاکرات اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اسلام آباد اور کابل نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر نے قیام امن کے لیے پاکستان کی حمایت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل اقتصادی تعاون کے مشترکہ فریم ورک پر بھی کام کر رہے ہیں۔
حنیف اتمر نے یہ بات پیر کو پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر رابطے کے بعد اپنی ٹوئٹس میں کہی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے افغان ہم منصب کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کرونا وائرس سے نمٹنے کی مشترکہ کوششوں، امن و سلامتی اور اقتصادی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے حنیف اتمر کو قائم مقام وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ ان کی موجودگی میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اہم ہمسائیہ کی حیثیت سے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب کو آگاہ کیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر پاکستان نے افغانستان کی درخواست پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ جن میں افغان شہریوں کی وطن واپسی اور مال بردار گاڑیوں کی نقل وحرکت کی بحالی بھی شامل ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پیر کو ہونے والے رابطے کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے 'پاکستان، افغان ایکشن پلان برائے امن و اتحاد' کا اجلاس بلانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے افغان ہم منصب سے گفتگو کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ایکشن پلان کا آئندہ اجلاس جلد منعقد ہو گا۔ جس سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھے گا۔
دوسری طرف افغان وزیر خارجہ کے بقول اسلام آباد اور کابل نے اقتصادی تعاون کے مشترکہ فریم ورک کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے بحران کے دوران باہمی تجارت کو آسان کرنے کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اس موقع پر دونوں وزرائے خارجہ نے جلال آباد، طورخم، چمن اور اسپین بولدک کے درمیان ریل کی پٹڑی بچھانے کی تجویز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مشترکہ ایکشن پلان کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق ایک دوسرے کے تحفظات سمجھنے میں مدد ملے گی۔
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ شدت پسند گروپ داعش کے رہنما اسلم فاروقی اور ان کے ساتھیوں کی معلومات کا تبادلہ دونوں ملکوں کی سلامتی کے لیے اولین ترجیح ہے۔
یادر ہے کہ اسلام آباد اور کابل نے مئی 2018 میں 'افغانستان، پاکستان ایکشن پلان برائے امن و اتحاد' کے فریم ورک پراتفاق کیا تھا۔
اس گروپ کا آخری اجلاس گزشتہ سال کابل میں ہوا تھا جس کے بعد اسلام آباد میں اجلاس ہونا تھا لیکن بعض وجوہات کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔
حنیف اتمر کے رواں ماہ کے آغاز میں افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ بننے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان یہ پہلا رابطہ ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے افغان امن عمل کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیرخارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان، افغان امن عمل میں اپنا مصالحتی کردار ادا کرتا رہے گا۔
وزیرخارجہ قریشی کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ طالبان امن معاہدہ افغان قیادت کو ایک تاریخی موقع فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ ایک مستحکم اور پرامن افغانستان کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ کرونا کے باعث دونوں ملکوں میں پھنسے شہریوں اور تجارتی قافلوں کی واپسی کے لیے سرحد کھولنے کا معاملہ مثبت پیش رفت ہے۔
طاہر خان کے بقول بین الافغان مذاکرات میں تاخیر اور طالبان کے حملوں کے باعث افغان حکومت پریشان ہے۔ لہذٰا افغان حکومت اس معاملے میں پاکستان کی کوششوں کا بھی خیر مقدم کر رہی ہے۔
تجزیہ کار طاہر خان کے بقول کابل یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2018 میں قائم ہونے والے امن و یکجہتی کے 'میکنزم' کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور کابل میں ہونے والے حالیہ رابطے دنوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے مثبت پیش رفت کا باعث بنیں گے۔