دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 20 جون کو مہاجرین کا عالمی دن منایا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق دنیا بھر میں مشکلات اور تنازعات کے باعث اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور افراد کی تعداد چھ کروڑ 85 لاکھ تک پہینچ گئی ہے۔
’یو این ایچ سی آر‘ نے منگل کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اپنا وطن یا گھر چھوڑنے والے ایسے افراد میں شام کے شہری اور میانمار کے روہنگیا سرِ فہرست ہیں۔
پاکستان اب بھی افغان مہاجرین کی میربانی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں لگ بھگ 14 لاکھ اندارج شدہ جب کہ تقریباً 10 لاکھ افغان پناہ گزین غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
اسلام آباد میں قائم مہاجرین کی کچی بستی میں مقیم افغان شہریوں میں سے بیشتر پاکستان ہی میں پیدا ہوئے اور اب اُن کی اگلی نسل بھی یہیں جوان ہو رہی ہے۔
ان مہاجرین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ جتنا وقت وہ اس ملک میں گزار چکے ہیں اس کے پیشِ نظر پاکستان کو اُنھیں شہریت دے دینی چاہیے۔
افغان مہاجر عبدالحمید کی عمر لگ بھگ 40 سال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے دادا پاکستان آئے تھے، اُن کی تدفین بھی یہیں ہوئی اور اب اُن کا خاندان واپس نہیں جانا چاہتا۔
"ہماری خواہش یہ ہے کہ ہم یہاں رہے ہیں۔۔۔ ہمارے چھوٹے یہاں پر ہی بڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے جو بزرگ ہیں وہ یہاں پر دفن ہوئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان سے درخواست ہے ہمیں پاکستانی نیشنیلیٹی (شہریت) دی جائے۔"
ایک اور افغان شہری شاہنواز خان بھی پاکستان کی شہریت چاہتے ہیں۔
"جیسا لوگ یہاں سے لندن، ناروے اور اٹلی جاتے ہیں تو اُنھیں نیشنیلیٹی ملتی ہے۔ ہم کو صرف مہاجر کارڈ ملا ہوا ہے۔ ہم یہاں سے کراچی جاتے ہیں۔ ہم کاروباری لوگ ہیں۔ پولیس والا ہم کو تنگ کرتا ہے۔ ہم کو کچھ نہیں چاہیے۔ صرف ہم کو نیشنیلیٹی چاہیے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن گلاب خان کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مقیم بیشتر افغان اپنے ملک میں امن کے منتظر ہیں اور اگر وہاں امن ہوگیا تو اُنھیں واپس جانے کے لیے نہ بھی کہا گیا تو وہ خود جانا چاہیں گے۔
"افغان مہاجرین بغیر کسی کے کہنے کے خود بھی جانا چاہتے ہیں۔۔۔ ہماری پیدائش ادھر ہو گیا اور ادھر بڑا ہو گیا۔ جوان ہو گیا، ہمارے بچے ہو گئے۔ تو اگر افغانستان میں امن آ جائے۔۔۔ توخود بخود لوگ جائیں گے۔"
شریف اللہ کہتے ہیں کہ اُن کا افغانستان میں گھر نہیں ہے اور اگر افغان حکومت اُن جیسے افراد کے لیے وہاں بھی کوئی عارضی بستی قائم کر دے تو وہ اپنے ملک واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔
"ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی افغانستان میں ایسا ہی ایک کیمپ دے دیں۔۔۔ ادھر ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔ زمین بھی نہیں ہے۔ گھر بھی نہیں ہے۔۔۔ ہم اتنا کما سکتے ہیں کہ اپنا پیٹ پال لیں۔ لیکن اتنے پیسے نہیں کہ گھر کرائے پر لے سکیں۔"
پاکستان میں مقیم اندارج شدہ افغان مہاجرین کے قیام کی مدت رواں ماہ 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ نگران حکومت اس مدت میں توسیع کر دے گی۔
'یو این ایچ سی آر' کے مطابق پاکستان کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس معاملے کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے عالمی ادارہ پاکستان سے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
عالمی ادارے کے مطابق اسے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2002ء سے اب تک 43 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان سے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
پاکستانی حکام کہتے رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے لیے ان کی جانب سے ہر ممکن مدد اور سہولت فراہم کی جائے گی۔
پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی برداری سے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی احسن طریقے سے واپسی اور اُن کی اپنے ملک میں بحالی سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔