افغان پناہ گزین دنیا کے پناہ گزینوں کی کل تعداد کا ایک چوتھائی ہیں ۔ اور ان میں سے 95 فیصد پاکستان یا ایران میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے ان پناہ گزینوں کی رہائیش کی قانونی حیثیت اس سال کے آخر تک ختم ہوجائے گی ۔ لیکن بہت سےپناہ گزین ابھی واپس جانے کے لیئے تیار نہیں ۔
افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات اور کئی دوسرے علاقوں میں کچی آبادیوں میں رہ رہی ہے ۔ ڈاکٹر محمد نذر تقریباً اٹھارہ سال پہلے پاکستان آئے تھے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ان بستیوں میں بچوں کے لیئے کسی قسم کی سہولیات نہیں ، صفائی ستھرائی اور بجلی نہیں ۔ یہاں بچھو اور سانپ ہیں ۔ علاج معالجے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔
2002ء سے اب تک تقریباً ساڑھے پچاس لاکھ افغان اپنے گھر لوٹ چکے ہیں ۔لیکن 17 لاکھ اب بھی پاکستان کے ایسے ہی مختلف کیمپوں میں رجسٹرڈ ہیں ۔جبکہ کم از کم 10 لاکھ کے پاس اپنی شناخت کی کوئی دستاویز نہیں ۔ایک غیر سرکاری کیمپ میں حالات تشویشناک ہیں ۔ثنا گل85 خاندانوں پر مشتمل ایک مہاجر کمیونیٹی کے نمائندے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ آئے روز پولیس ہم سے پیسے مانگتی ہے ، ہم میں سے اکثر کے پاس شناختی کارڈ نہیں اور اگر ہم انہیں پیسے نہ دیں تو ہمیں پولیس سٹیشن پرلے جاکر ملک بدری کی دھمکی دی جاتی ہے ۔
وفاقی وزیر برائے ریاستی امور اور سرحدی علاقہ جات شوکت اللہ کہتے ہیں کہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے پاکستان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان پناہ گزینوں کا بوجھ مزید اٹھائے رکھے ، زیادتی ہے ۔یہ ہماری معیشت پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے ۔
پر مصائب حالات کےباوجود اقوام متحدہ کے ادارہ برائےپناہ گزین کی دنیا اسلم خان کو کم ہی افغان مہاجرین کے واپس جانے کی توقع ہے ۔
ان کا کہناہے کہ ان پناہ گزینوں کی ایک پوری نسل پاکستان میں پلی بڑھی ہے جس نے پاکستان کو ہی اپنے ملک کے طور پر دیکھا ہے ۔ واپس نہ جانے کے خواہش مند افغانستان میں سیکیورٹی کی صورت حال سے پریشان ہیں ۔
جلا وطنی کے 30 برسوں میں غلام سرور کی زندگی میں دس بچوں ، تین پوتے پوتیوں اور یہاں رہنے کی وجوہات میں اضافہ ہوا ۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اور کوئی حل نہیں ۔ ہمیں یہیں رہنا ہے ۔ ٹھیک ہے یہاں مسائل ہیں، لیکن افغانستان میں یہاں سے زیادہ مسائل ہیں جیسے طالبان اور دہشت گردی ۔
حکومت پاکستان طالب علموں اور تاجروں سمیت ایسے لوگوں کے قیام کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے جو انخلاء سے سب زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔لاکھوں پناہ گزین واپس جاچکے ہیں ۔ عالمی ادارے کے مطابق واپس جانے والوں میں سے کئی کو اپنے علاقوں میں نئی زندگی شروع کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کئی دوبارہ واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔