سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے انسانی حقوق کے لیے سرگرم دو پاکستانی خواتین کو آگاہ کیا ہے کہ ان کی بعض ٹوئٹس کے بارے میں انہیں سرکاری سطح پر شکایات ملی ہیں۔
ندا کرمانی اور ریما عمر نے اپنے ٹوئٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹوئٹر کی طرف سے انہیں ملنے والی ای میلز میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر کو پاکستانی حکام نے شکایت کی ہے کہ ان کی بعض ٹوئٹس ملکی قوانین کے خلاف ہیں۔
ندا کرمانی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ٹوئٹر کی لیگل ٹیم کی طرف سے انہیں بھیجی گئی ای میل میں بتایا گیا ہے ان کی تین ٹوئٹس کو پاکستانی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر کو شکایت کی گئی ہے۔
Got a msg from Twitter Legal that an official complaint has been made against me for violating Pakistani law. Tweets mentioned: 1. a photo w/Manzoor Pashteen 2. a critique of the creation of an ultra-nationalist death squad 3. a defence of PTM. No specific laws were mentioned.
— Nida Kirmani (@nidkirm) January 21, 2019
ندا نے کہا ہے کہ ان میں سے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی تھی۔ دوسرے میں انہوں نے انتہائی قوم پرست ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل پر تنقید کی تھی جب کہ تیسری ٹوئٹ وہ ہے جس میں انہوں نے پی ٹی ایم کا دفاع کیا تھا۔
تاہم ندا کے بقول ٹوئٹر نے اپنے پیغام میں ان مخصوص قوانین کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے جن کی خلاف ورزی کا ان پر الزام عائد کیا گیا ہے۔
ندا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ٹوئٹر کی طرف سے انہیں بھیجی گئی ای میل کا اسکرین شاٹ بھی شئیر کیا ہے جس میں ٹوئٹر نے انہیں بتایا ہے کہ کمپنی نے تاحال ان کے اکاؤنٹ سے پوسٹ ہونے والے اس مواد کی خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے جس کی شکایت اسے موصول ہوئی تھی۔
دوسری طرف سیاسی و سماجی امور کی تجزیہ کار اور وکیل ریما عمر نے بھی کہا ہے کہ انہیں بھی ٹوئٹر کی طرف سے ایک پیغام ملا ہے جس کے مطابق فوجی عدالتوں سے متعلق ان کی ایک ٹوئٹ کے بارے میں انہیں "سرکاری" سطح پر شکایت کی گئی ہے۔
اپنی اس ٹوئٹ میں ریما عمر نے فوجی عدالتوں کے طریقۂ کار کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے۔
Twitter has received “official correspondence” that these tweets questioning the procedures of military courts violate Pakistani law Interesting times where “officials” see references to the law - i.e. the Constitution + judgments of high courts - as a violation of the law :) pic.twitter.com/vnQvuccIDE
— Reema Omer (@reema_omer) January 21, 2019
ریما عمر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ خود حکام کے نزدیک آئین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی بات کرنا قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
ریما عمر کے ٹوئٹ کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ٹوئٹر سے یہ شکایات ان کی حکومت نے کی تھیں۔
This is absolutely an academic debate why would Govt question that debate? No correspondence with twitter on this topoc from us... https://t.co/XYEEgU4Z8i
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) January 21, 2019
فواد چودھری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "قطعی طور پر یہ ایک علمی بحث ہے، حکومت کیوں اس بحث پر اعتراض کرے گی؟ اس موضوع پر ٹوئٹر کے ساتھ کوئی خط کتابت نہیں ہوئی ہے۔"
Thank you, Sir. Appreciate your clarification, but it leads to more questions: Is twitter making up these emails? Is some imposter pretending to be a Govt. official making these complaints? Or are these complaints being made “officially”, but without the Govt’s knowledge? https://t.co/3G1bH0LTEH
— Reema Omer (@reema_omer) January 21, 2019
ریما عمر نے فواد چودھری کی وضاحت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وضاحت کے بعد کئی سوالات اٹھے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا ٹوئٹر ایسی ای میل خود سے کررہا ہے یا کوئی دھوکے باز حکومت کا نمائندہ بن کر یہ شکایات کر رہا ہے؟ یا ان کے بقول کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت کے علم میں لائے بغیر یہ شکایات کی جا رہی ہیں؟
انسانی حقوق کے دیگر سرگرم کارکنوں اور کئی صحافیوں نے بھی ٹوئٹر کی طرف سے ندا کرمانی اور ریما عمر کو نوٹس بھیجنے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق سے متعلق غیر سرکاری تنظیم بائٹس فار آل' سے وابستہ شہزاد احمد نے منگل کو کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قبل بھی لگ بھگ 10 پاکستانیوں کو ٹوئٹر کی طرف ایسے نوٹس مل چکے ہیں۔ ان کےبقول ایسے اقدامات سے سماجی میڈیا پر آزادی اظہار کی فضا محدود ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے دیگر سرگرم کارکنوں اور کئی صحافیوں نے بھی ٹوئٹر کی طرف سے ندا کرمانی اور ریما عمر کو نوٹس بھیجنے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹوئٹر کو پاکستان میں آزادیٔ اظہار کے خلاف کیے جانے والے مبینہ اقدامات میں فریق نہیں بننا چاہیے۔
حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آرہے ہیں کہ حکومت آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے عزم پر قائم ہیں تاہم ان کے بقول حکومت سماجی میڈیا پر ریاست مخالف بیانیے کی تشہر کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔