پاکستانی معاشرے میں اب بھی بعض حلقے عورت کو بوجھ تصور کرتے ہیں، بیٹی ہونے کی صورت میں والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی جلد شادی کروا کے اُسے ’حقیقی گھر‘ سسرال رخصت کر دیا جائے، تاکہ اُسے شوہر کی صورت میں زندگی بھر کے لیے سہارا مل جائے۔
لیکن بعض اوقات یہ حقیقی گھر خواتین کے لیے مشکلات کی ایک جگہ بن جاتا ہے اور ایسی بہت سے مثالیں ہیں جن میں معمولی غلطی پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
خواتین پر تشدد کی ایک بدترین شکل، اُن پر تیزاب کے حملے ہیں۔
تاہم گھریلو تشدد کے باوجود ایسی بہت سی خواتین ہیں، جو تمام تر مشکلات کے باوجود بہادری کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایسی ہی ایک خاتون بشریٰ شفیع، پاکستان کے شہر لاہور میں مقیم ہیں، اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں اپنی زندگی کے سفر اور مشکلات کا ذکر کچھ یوں کیا۔
’’تقریبا بیس سال پہلے میرے ساتھ یہ واقع پیش آیا، میری شادی میرے والدین نے اپنی مرضی سی کی تھی، میری پسند کی شادی نہیں تھی۔ میرے والدین کا بہت اچھا کاروبار تھا اور میں خوش تھی اپنے خاوند اور سسرال کے ساتھ۔ جب میری شادی ہوئی تو سسرال والے چھوٹی موٹی فرمائشیں کرتے رہتے تھے۔۔۔ لیکن مجھے اپنے والدین سے مانگنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اسکے باوجود (میرے والدین) ان کی ساری فرمائیشیں پوری کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی فرمائشیں بڑھنے لگیں اور اچانک میرے سسرال والوں نے مجھ سے پچاس ہزار کی بڑی رقم مانگ لی جو میرے گھر والوں کے پاس نہیں تھی۔"
بشریٰ کے بقول جب اتنی بڑی رقم اُن کے سسرال والوں کو نا ملی تو اُنھوں نے ’تشدد‘ کا راستہ اختیار کیا۔
’’سسرال والوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتی ہو۔ جھوٹ اور سچ کا پتہ لگانے کے لیے انھوں نے منصوبہ بنایا کہ تمھارا چہرہ جلا دیں گے، اگر تمہارا علاج والدین نے نہیں کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ان کے پاس رقم نہیں ہو گی۔ ان کے سچ اور جھوٹ نے میری زندگی برباد کر دی ۔۔۔ میرے شوہر، ماموں اور میری ساس نے مجھے باندھا۔ میرے چہرے پر تیزاب ڈال دیا ۔۔۔ انتہائی تکلیف سے میں بے ہوش ہوئی، جب مجھے ہوش آیا تو اس وقت میں نے اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا۔ مجھے ہسپتال تک لانے والے میرے گھر کے قریب کارخانے میں کام کرنے والے مزدور تھے۔‘‘
بشریٰ کا کہنا تھا کہ بعد ازاں پولیس نے اُنھیں بتایا کہ اُن کے سسرال والوں نے اُس کے خلاف ایک مقدمہ درج کروایا ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ بشریٰ نے خودکشی کی کوشش کی اور اپنے گھر کو آگ لگا دی۔
بشریٰ کا کہنا تھا کہ وہ مزدور جنہوں نے اُسے اسپتال پہنچایا تھا، اُنھوں نے پولیس کو حقائق سے آگاہ کیا۔
’’آٹھ سال تک مقدمہ لڑی۔۔۔ لیکن (مقدمہ طول پکڑتا گیا اور) تاریخ پر تاریخ پڑنے لگی۔۔۔ اکیلے ہونے کی وجہ سے میں نے خود مقدمہ چھوڑ دیا۔‘‘
بشرا کا کہنا تھا کہ تیزاب کے حملے سے اُن کا چہرہ بری طرح متاثر ہوا اور ’’میرے ساتھ معاشرے کا رویہ بہت سخت تھا، لوگ مجھ سے بات کرنے سے کتراتے تھے اور عجیب قسم کے جملے بھی کستے تھے۔‘‘
لیکن پھر اُن کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا ’’میں نے اخبار میں اشتہار پڑھا، تو اس میں سمائل اگین یعنی (دوبارہ مسکراؤ) کے بارے میں لکھا تھا، میں اس بیوٹٰی سینٹر چلی گئی مسرت مصباح نے میرے بہت سے آپریشن کیے کچھ عرصے کے بعد اُنھوں نے مجھے بیوٹیشن کا کورس کرایا، اور اب میں بیوٹیشن ہوں۔ میں یہاں پہ کام کرتی ہوں اور مجھے تنخواہ ملتی ہے۔ خود مختاری کی زندگی گزار رہی ہوں۔‘‘