نواز شریف کا دورہ امریکہ مثبت رہا: پاکستانی قانون ساز

سینیٹر حاجی محمد عدیل نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے دورے سے حکومت کی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنے کی توقع ہے، تاہم اُن کے بقول عوام کی توقعات اس سے بڑھ کر تھیں۔
پاکستان میں قانون سازوں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کا دورہِ واشنگٹن دوطرفہ تعلقات کے لیے فائدہ مند رہا تاہم ڈرون حملوں کی بندش سے متعلق امریکہ کی جانب سے اگر کوئی مثبت بیان سامنے آتا تو اس سے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات بڑھ جاتے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے چار روزہ دورہِ واشنگٹن کا اختتام وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما سے ملاقات کی صورت میں ہوا، جب کہ اس سے قبل وہ امریکہ کی سیاسی قیادت و قانون سازوں، اہم شخصیات اور امریکہ میں آباد پاکستانیوں سے بھی مختلف اُمور پر تبادلہ خیال کر چکے تھے۔

ان ملاقاتوں میں توانائی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کے فروغ کے علاوہ سلامتی سے متعلق اُمور بالخصوص دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ بننے والے ڈرون حملوں پر بات چیت کی گئی۔

پاکستان میں قانون سازوں اور سیاسی رہنماؤں نے وزیرِ اعظم کے دورہِ واشنگٹن کو پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے۔

پاکستانی پارلیمان کی عمارت


پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے سربراہ سینیٹر حاجی محمد عدیل نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے دورے سے حکومت کی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنے کی توقع ہے، تاہم اُن کے بقول عوام کی توقعات اس سے بڑھ کر تھیں۔

’’انتظامیہ کی سطح پر تو فضا بدلی ہے اور اس کے نتائج بھی وقت کے ساتھ ساتھ نظر آئیں گے لیکن اس دورے کے نتیجے میں عوام کو کوئی پیغام نہیں ملا ... اس دورے سے پاکستان کی عوام کو جو توقعات تھیں وہ کسی حد تک پوری نہیں ہوئیں۔‘‘

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے دورے میں امریکی عہدیداروں نے جن شعبوں میں تعاون کا اعادہ کیا اُن میں سے بیشتر پر پہلے ہی کام جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس دورے کا اہم ترین حصہ پاکستانی حدود میں جاری امریکی ڈرون حملوں پر گفت و شنید تھی۔ قمر زمان کائرہ کے بقول یہ معاملہ موجودہ حالات میں اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ طالبان شدت پسندوں سے مجوزہ امن مذاکرات میں پیش رفت ان متنازع کارروائیوں کی بندش سے مشروط ہے۔

’’اگر وہ ڈرون حملوں کے معاملے پر پاکستان کو کوئی رعایت دیتے یعنی ان کو روک دیتے یا ان کو معطل کر دیتے تو وزیرِ اعظم پاکستان زیادہ مضبوط ہو کر واپس آتے اور مذاکرات کا عمل شروع کرتے (پھر) اگر طالبان پیچھے ہٹتے تو ساری قوم ان (حکومت) کے ساتھ کھڑی ہوتی ... یوں لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم کو سنا تو گیا لیکن سنایا زیادہ گیا۔‘‘

البتہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف واضح انداز میں پیش کیا۔

فضل الرحمٰن


’’جس قوت کے ساتھ اُنھوں نے ڈرون حملوں کے مسئلے کو اُٹھایا ہے، یقیناً اُنھوں نے پاکستانی قوم کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے اور پہلی مرتبہ پبلک اور پرائیوٹ سطح پر گفتگو میں یکسانیت پائی گئی، عوامی سطح ہو یا حکومت کی سطح ایک متفقہ نقطہ نظر کے ساتھ مسئلے کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘

وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورے کے اختتام کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکہ کے ایک موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں عہدیدار کئی سالوں تک نا صرف ڈرون حملوں کی توثیق کرتے رہے بلکہ اُنھیں ایسے حملوں میں ہونے والے جانی نقصانات سے متعلق بریفنگ بھی دی جاتی رہی۔

واشنگٹن پوسٹ نے یہ خبر امریکی انٹیلی جنس ادارے ’سی آئی اے‘ سے حاصل ہونے والی دستاویزات کی بنیاد پر دی ہے۔

سابقہ حکومت میں وزیرِ اطلاعات و نشریات کے فرائض سر انجام دینے والے قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن پوسٹ کی خبر میں کوئی نیا انکشاف نہیں کیا گیا۔

’’وزیرِ اعظم کی (ڈرون حملے بند کرنے سے متعلق) بات نہیں مانی گئی تو صورت حال کو تھوڑا بہت متصادم کرنے کے لیے یا دنیا کو تاثر دینے کے لیے اُنھوں نے یہ بات ایک خاص موقع پر کی ہے۔‘‘

قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان کی معاونت کے دعوے پہلے بھی بے شمار دفعہ کیے جا چکے ہیں اور ان کی تردید بھی کی گئی۔

قمر زمان کائرہ


’’بار ہا یہ کہا جا چکا ہے کہ اس طرح کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہے پاکستان کے پاس، اگر آپ کے پاس ہے تو دے دیں ... (اور) جہاں تک زبانی کلامی یقین دہانی کی بات ہے تو حکومتوں کی سطح پر زبانی کلامی یقین دہانیاں نہیں ہوتیں۔‘‘

پاکستان ڈرون حملوں کو ملکی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے ان پر امریکہ سے احتجاج کرتا آیا ہے، تاہم واشنگٹن پوسٹ کی اس خبر پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔