امریکہ پاکستان سے تعلقات کی جلد بحالی کا منتظر

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر

امریکی سفارت خانے کے نائب سربراہ رچرڈ ہوگلنڈ نے کہا ہے کہ اُن کا ملک پاکستان سے تعلقات کے نئے خد و خال کے منظرعام پر آنے کا منتظر ہے۔

اسلام آباد میں بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سفارتی سطح کےعلاوہ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت بھی دوطرفہ رابطوں کی بحالی کی خواہاں ہے۔

’’مجھے معلوم ہے کہ دونوں طرف، جنرل (جیمز) میٹس اور جنرل (اشفاق پرویز کیانی) دوبارہ رابطے میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ مناسب وقت پر ہوگا۔‘‘

مگر مسٹر ہوگلینڈ نے امریکی فوجی کمانڈر جنرل جیمز میٹس کے رواں ماہ دورہِ پاکستان کی اطلاعات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا۔

رچرڈ ہوگلینڈ

جنرل میٹس نے ایک روز قبل واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران انکشاف کیا تھا کہ وہ آئندہ 10 روز میں اسلام آباد جائیں گے جہاں پاکستانی قیادت کے ساتھ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے رسد کا سلسلہ بحال کرنے پر بات چیت کریں گے۔

پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بدھ ہی کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس تاثر کی نفی کی کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات سے متعلق پاکستان میں پارلیمانی عمل تاخیر کا شکار ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور پارلیمان کی حمایت سے بحال ہونے والے دوطرفہ تعلقات پہلے سے زیادہ دیرپا ہوں گے۔

’’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں اور یہ پاکستان کے بہتر مفاد میں ہے لیکن جیسا کہ بار بار کہا گیا کہ یہ تعلقات باہمی احترام اور باہمی مفاد پر ہونے چاہیئں اور ان کو ہم آگے لے کر جانا چاہئیں گے‘‘۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تقریباَ سولہ ہفتوں سے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ سلالہ سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے احتجاجاً دوطرفہ تعاون کی شرائط پر نظر ثانی کا اعلان کیا تھا اور اُس نے یہ کام پارلیمان پر چھوڑ رکھا ہے۔

امریکہ کئی مرتبہ تعلقات کی جلد از جلد بحالی کی اپنی خواہش کا اظہار کر چکا ہے لیکن اُس کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں جاری پارلیمانی عمل کا احترام کرتا ہے۔

پاکستان نے سلالہ حملے کے خلاف اپنے سخت رد عمل میں بلوچستان میں شمسی ایئربیس امریکہ سے خالی کروانے کے علاوہ اپنی سر زمین کے راستے نیٹو رسد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

پاکستانی پابندی کے بعد متبادل راستوں سے رسد کی ترسیل پر امریکہ کے اخراجات میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے اور وہ جلد از جلد سپلائی لائنز کی بحالی پر زور دیتا آیا ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون کی نئی شرائط میں نیٹو قافلوں پر بھاری محصولات نافذ کرنے کی سفارش بھی شامل ہے کیونکہ گزشتہ دس سال کے دوران اس سامان سے لدے بھاری ٹرکوں کی آمدورفت سے ملک کی شاہراہوں کو نقصان پہنچا ہے اور ان کی مرمت کے لیے حکومت کو اربوں روپے درکار ہیں۔

بدھ کو روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فوج کے زیر انتظام ادارے نیشنل لاجسٹک سیل اور محکمہ ریلوے کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ریلوے کے 30 انجنوں کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے گا تاکہ مال گاڑیوں کے ذریعے نیٹو کے لیے رسد کی سرحدی علاقوں تک ترسیل کو ممکن بنایا جاسکے۔ تاہم پاکستانی فوجی اور سویلین حکام نے ان اطلاعات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔