پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے سربراہ ملک اعظم خان کا کہنا ہے کہ جس امداد کا اعلان کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون کے فروغ کے لیے جاری اسٹریٹیجک مذاکرات کس قدر کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
وائس آف مریکہ سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ دو ارب ڈالر کی فوجی امداد کا پیکج اگرچہ کسی حد تک ان مشکلات کو دور کرنے میں مدد دے گا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو درپیش ہیں لیکن ان کے مطابق یہ امداد پاکستان کے اس تعاون کے مقابلے میں ناکافی ہے جو وہ شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے فراہم کر رہا ہے اور یہ کہ واشنگٹن کو اس ضمن میں اپنے قریبی اتحادی کی مزید مدد کرنی چاہے ۔
حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اگرچہ خود بھی اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے مطابق واشنگٹن کو مزید فراخدلانہ امداد دینی چاہیے کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو شدید نقصان ہوا ہے۔ ’’ہمارے ہاں تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں ، کارخانے بند ہورہے ہیں، یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی اور ہمیں کئی ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے صرف دو ارب ڈالر کی فوجی امداد دینا کافی نہیں‘‘۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کے ہم خیال گروپ سے تعلق رکھنے والے رہنما اور سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سلیم سیف اللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اقتصادی مشکلات کے تناظر میں امریکہ کی امداد بہرحال اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اپنے قریبی اتحادی کے ہاں پائیدار بنیادوں پر استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کواپنی منڈی تک رسائی دینے اور دوطرفہ تجارت بڑھانے کے علاوہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں بھی مدد دینا ہوگی ۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ق کے سینیٹر اور ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر امریکہ پاکستان میں اپنا وقار بلند کرنا چاہتا ہے تو یہ صرف مالی امداد سے ممکن نہیں بلکہ اسے ملکی سرزمین پر اپنے ڈرون حملے روکنے ہوں گے اور ان کے مطابق اگر یہ کارروائیاں جاری رہیں تو پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ عسکری امداد کے ساتھ ساتھ امریکہ کو پاکستان کی غیر فوجی امداد میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں خاص طور پر ڈیموں کی تعمیر کے لیے مدد دی جانی چاہیے تاکہ ملک کا بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہو اور یہ منصوبے ہمیشہ امریکی تعاون کی یاد دلاتے رہیں۔
جمہ کو واشنگٹن میں تین روزہ پاک امریکہ سٹریٹیجک مذاکرات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے2012سے 2016 کے دوران دو ارب ڈالر فوجی امداد کی منظوری کے لیے کانگریس سے درخواست کی جائے گی۔