ریمنڈ ڈیوس: 14 دن کا مزید ریمانڈ، امریکہ کی مایوسی

(فائل فوٹو)

پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس کو حاصل سفارتی استثنیٰ کی تصدیق نہ کرنے پر امریکہ کو مایوسی ہوئی ہے۔

سفارت خانے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اُنھوں نے کہا کہ امریکہ نے اس کیس کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر رکھی ہے ۔

ریمنڈ ڈیوس: 14 دن کا مزید ریمانڈ، امریکہ کی مایوسی

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان میں دوہرے قتل کے الزام میں زیر حراست امریکی محکمہء خارجہ کے ایک اہلکار کے سفارتی استثنا پر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو مزید مہلت دیتے ہوئے اس معاملے سے متعلق عدالت میں دائر درخواستوں کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔

ریمنڈ ایلن ڈیوس نامی 36 سالہ اہلکار کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ بحیثیت سفارت کار اسے مکمل استثنا حاصل ہے لیکن پاکستانی عہدے داروں کا موقف ہے کہ استثنا کا تعین ملک کی عدالت کرے گی۔

امریکی سفیر کیمرون منٹر

جمعرات کو انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں ہونے والی مختصر سماعت کے دوران نائب اٹارنی جنرل نوید عنایت نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کو امریکی اہلکار کی سفارتی حیثیت پر اپنا بیان پیش کرنے کے لیے مزید تین ہفتوں کا وقت درکار ہے۔

اس استدعا کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنا پر وفاقی حکومت کا موقف جانے بغیر کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتے۔

سماعت کے دوران عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت نے عدالتی حکم کے مطابق امریکی اہلکار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) یعنی اُن افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جنھیں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں عدالت عالیہ نے وزارت خارجہ کو عدالت کے سامنے اپنا جواب پیش کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دی تھی جو جمعرات کو ختم ہو گئی۔

لاہور پولیس نے امریکی اہلکار کو دو پاکستانی نوجوانوں کے قتل کرنے کے الزام میں 27 جنوری سے گرفتار کر رکھا ہے جب کہ امریکہ کا اصرار ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو حراست میں رکھنا سفارتی امور سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

زیر حراست امریکی اہلکار نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ اس نے دونوں افراد پر اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں کیوں کہ وہ مسلح تھے اور اس کو لوٹنا چاہتے تھے تاہم لاہور پولیس نے ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں ریمنڈ ڈیوس کے اس موقف کو مسترد کر دیا ہے اور وہ اس واقعے کو دانستہ قتل قرار دے رہی ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کی مدد کو پہنچنے والی امریکی قونصل خانے کی ایک گاڑی کی ٹکر سے تیسرے پاکستانی شخص کی ہلاکت کی وجہ سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا تھا اور اس واقعے کے بعد پاک امریکہ سفارتی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

اس معاملے کا حل تلاش کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ دور کرنے کی کوشش کے سلسلے میں امریکی سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان کیری نے بھی رواں ہفتے پاکستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا جہاں اُنھوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے الگ الگ ملاقاتوں میں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔

بدھ کی شب امریکہ روانگی سے قبل انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائدوں سے گفتگو میں بتایا کہ لاہور میں پیش آنے والا واقعہ اور امریکی اہلکار کی گرفتاری ایک ’پیچیدہ سیاسی مسئلے‘ میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اُنھیں امید ہے کہ دونوں ملک جلد اس کا حل تلاش کر لیں گے۔

اُن کے اس بیان سے قبل وزیر اعظم گیلانی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس معاملے کے ایک حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسلامی قانون کے تحت ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین معاوضے کے بدلے امریکی اہلکار کو معاف کر سکتے ہیں۔

لیکن مقتولین کے بھائیوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف انصاف چاہتے ہیں۔

تاہم وزیر اعظم گیلانی نے امریکی سینیٹر کو بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کے استثنا کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور وہی اس کا حتمیٰ فیصلہ کرے گی۔

جمعرات کو حال ہی میں تشکیل دی گئی نئی وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب میں بھی اُنھوں نے اپنا یہ موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر صرف وہی وزرا کوئی بیان دینے کے اہل ہوں گے جنھیں خصوصی طور پر یہ اختیار دیا جائے گا تاہم وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کسی وزیر کا نام نہیں لیا۔

سینیٹر کیری نے اپنے دورے میں پاکستانی عوام کو یہ بھی یقین دلایا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا جاتا ہے تو امریکی حکومت اس کے خلاف اپنے قوانین کے تحت تحقیقات کرے گی۔