مذاکرات کی پیشکش کا انکار کرنے والوں سے جنگ ہو گی: وزیر داخلہ

چودھری نثار نے کہا کہ طالبان کے ان گروپوں کو خوش آمدید کہا جائے گا جو حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔ تاہم اُنھوں نے متنبہ کیا کہ مذاکرات کی پیشکش رد کرنے والوں کے خلاف جنگ ہو گی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ شدت پسندی کے خاتمے کی سرکاری پالیسی کے تحت حکومت کے بعض طالبان گروہوں سے مذاکرات جاری ہیں، تاہم اُنھوں نے ان گروہوں کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

چودھری نثار کا کہنا تھا کہ امن و سلامتی کے لیے مذاکرات حکومت کی اولین ترجیح ہے اور طالبان کے ان گروپوں کو خوش آمدید کہا جائے گا جو حکومت کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔ تاہم اُنھوں نے متنبہ کیا کہ مذاکرات کی پیشکش رد کرنے والوں کے خلاف جنگ ہو گی۔

اسلام آباد میں اتوار کی شب صحافیوں سے گفتگو میں چودھری نثار کا کہنا تھا کہ طالبان کے جن گروہوں سے مذاکرات جاری ہیں، توقع ہے کہ اُس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کی روشنی میں اگرچہ حکومت طالبان سے مذاکرات کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن پھر بھی بعض حلقوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔

اس بارے میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنماء صدیق الفاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کی پیشکش بدستور قائم ہے۔

’’جو لوگ مذاکرات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اُنھیں عزت بھی دی جائے گی اور بات چیت بھی کی جائے گی۔۔۔۔۔ ہم اُنھیں مذاکرات کی پیش کش کریں اور قتل و غارت گری پر ہی آمادہ ہوں تو اُن کے خلاف تو جنگ ہو گی اس میں دو رائے نہیں ہیں۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے بارے میں یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے ہی کراچی میں پولیس کے ایک اعلٰی افسر چودھری اسلم کو بم حملے میں ہلاک کرنے کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروپ نے تسلیم کی تھی اور اتوار کو وزیراعظم نواز شریف کے ایک مشیر امیر مقام کو بھی بم حملے میں نشانہ بنایا گیا۔

اس صورت حال کے بارے میں صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ ’’جو چودھری اسلم، ہمارے جرنیلوں اور پولیس کے قاتل ہیں، جو باز ہی نہیں آ رہے اور مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے بارے میں قوم متحد ہے۔‘‘

گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت کل جماعت کانفرنس میں ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

لیکن نومبر 2013ء میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ حکومت سے مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں ایک با اثر مذہبی رہنماء مولانا سمیع الحق سے ملاقات کر کے اُنھیں طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کہا تھا لیکن بظاہر اب تک حکومت کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔