سلامتی کی صورت حال پر سیاسی و عسکری قیادت کا اجلاس

فائل فوٹو

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق اجلاس میں بنوں، پشاور، راولپنڈی، مستونگ اور کراچی میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد ملک بھر میں سلامتی کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد کی صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت جمعرات کو ایک اعلٰی سطحی اجلاس ہوا جس میں سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق اجلاس میں بنوں، پشاور، راولپنڈی، مستونگ اور کراچی میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد ملک بھر میں سلامتی کی صورت حال پر غور کیا گیا۔

بیان کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی سے متعلق اُمور بھی زیر غور آئے۔ اس اعلٰی سطحی اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام سمیت اہم وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی۔

ملک کے مختلف شہروں میں ایک ہفتے کے دوران دہشت گرد حملوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع بنوں اور پھر راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر سے کچھ فاصلے پر بم دھماکوں کا ہدف براہ راست سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔

ان حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو جیٹ طیاروں اور گن شب ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نشانہ بنایا جس میں عسکری ذرائع کے مطابق 36 غیر ملکی جنگجوؤں سمیت لگ بھگ 50 مشتبہ شدت پسند مارے گئے۔

بظاہر اس کارروائی کے بعد ملک کی اہم مذہبی و سیاسی شخصیت جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے بدھ کو طالبان سے مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔

جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ اُنھوں نے مذاکرات کے بارے میں طالبان سے مثبت اشارے ملنے کے بعد صورت حال کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کو پیغام بجھوا دیا تھا لیکن اُن کے بقول حکومت نے اُس کے بعد کوئی لائحہ عمل وضع نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ مذاکراتی عمل سے الگ ہو رہے ہیں۔

تاہم جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ مولانا سمیع الحق کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خاتمے سے عمومی متعلق بات ہوئی۔

ترجمان نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کو کوئی مشن نہیں سونپا گیا تھا بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں اُنھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے اُن سے عمومی بات چیت کی گئی تھی اور یہ بھی طے تھا کہ وہ بوقت ضرورت کس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ مولانا سمیع الحق کی طرف سے دیا جانے والا یہ تاثر درست نہیں کہ حکومت نے اُن کی بات نہیں سنی۔ جب کہ ترجمان نے وضاحت کی تینوں ہفتوں سے مولانا سمیع الحق نے کسی قسم کی پیش کش سے حکومت کو آگاہ نہیں کیا تھا۔