روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر پوٹن نے اپنی مصروفیات کے باعث یہ دورہ ملتوی کیا اور اس سے کسی بھی طرح کا تاثر اخذ نہ کیا جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روسی وزیر خارجہ سر گئے لاروف نے اپنی ہم منصب حنا ربانی کھر سے جمعرات کو اسلام آباد میں تفصیلی مذاکرات میں مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔
دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب بھی کیا لیکن بات چیت کے اختتام پر اقتصادی یا تجارتی شعبے میں تعاون سے متعلق کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ روسی وزیر خارجہ کے دورے کا مقصد صدر ولادیمر پوٹن کے دورہ پاکستان کی معطلی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں پیدا ہونے والے ابہام کو زائل کرنا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر پوٹن نے اپنی مصروفیات کے باعث یہ دورہ ملتوی کیا اور اس سے کسی بھی طرح کا تاثر اخذ نہ کیا جائے۔
سرگئے لاروف نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف اس مفاہمتی عمل سے ممکن ہے جو افغان عوام کا اپنا تجویز کردہ ہو اور وہ خود اس کی سربراہی کریں۔
’’اس سے پہلے بھی بین الاقوامی تجاویز کو افغانستان میں نافذ کیا گیا مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ اس لیے سکیورٹی کونسل کے فیصلے کے مطابق قومی مفاہمتی عمل کو فوقیت دی جائے اور اس میں ان تمام فریقین کی شرکت ہو جو ملک کے آئین کی پاسداری اور دہشت گردی سے گریز کریں‘‘
روسی وزیر خارجہ نے امریکی ڈرون حملوں سے متعلق پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کی خود مختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی قابل قبول نہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس بات پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائے جائیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید وسعت آئے گی۔
’’بیسویں صدی میں جن اقتصادی منصوبوں میں روس نے (پاکستان کے ساتھ) شراکت داری کی ہم چاہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں بھی روس ان (منصوبوں) میں تعاون جاری رکھے۔‘‘
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور ماسکو مضبوط دوطرفہ تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں صدر پوٹن بھی پاکستان کا دورہ کریں۔
دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب بھی کیا لیکن بات چیت کے اختتام پر اقتصادی یا تجارتی شعبے میں تعاون سے متعلق کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ روسی وزیر خارجہ کے دورے کا مقصد صدر ولادیمر پوٹن کے دورہ پاکستان کی معطلی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں پیدا ہونے والے ابہام کو زائل کرنا ہے۔
روسی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر پوٹن نے اپنی مصروفیات کے باعث یہ دورہ ملتوی کیا اور اس سے کسی بھی طرح کا تاثر اخذ نہ کیا جائے۔
سرگئے لاروف نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف اس مفاہمتی عمل سے ممکن ہے جو افغان عوام کا اپنا تجویز کردہ ہو اور وہ خود اس کی سربراہی کریں۔
’’اس سے پہلے بھی بین الاقوامی تجاویز کو افغانستان میں نافذ کیا گیا مگر وہ ناکام ہو گئیں۔ اس لیے سکیورٹی کونسل کے فیصلے کے مطابق قومی مفاہمتی عمل کو فوقیت دی جائے اور اس میں ان تمام فریقین کی شرکت ہو جو ملک کے آئین کی پاسداری اور دہشت گردی سے گریز کریں‘‘
روسی وزیر خارجہ نے امریکی ڈرون حملوں سے متعلق پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کی خود مختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی قابل قبول نہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس بات پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائے جائیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید وسعت آئے گی۔
’’بیسویں صدی میں جن اقتصادی منصوبوں میں روس نے (پاکستان کے ساتھ) شراکت داری کی ہم چاہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں بھی روس ان (منصوبوں) میں تعاون جاری رکھے۔‘‘
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور ماسکو مضبوط دوطرفہ تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں صدر پوٹن بھی پاکستان کا دورہ کریں۔