پاکستان نے آٹھ افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا

(فائل فوٹو)

دفتر خارجہ سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ رہا ہونے والوں میں صوبہ ہلمند کے سابق گورنر عبدالباری، سابق وزیر انصاف نورالدین ترابی، کابل کے سابق گورنر ملا داؤد جان، سابق وزیر اللہ داد طبیب اور میر احمد گل شامل ہیں۔
پاکستان نے افغانستان میں مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے مزید آٹھ افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ رہا ہونے والوں میں صوبہ ہلمند کے سابق گورنر عبدالباری، سابق وزیر انصاف نورالدین ترابی، کابل کے سابق گورنر ملا داؤد جان، سابق وزیر اللہ داد طبیب اور میر احمد گل شامل ہیں۔

بیان میں رہا کیے جانے والے دیگر تین طالبان کے نام نہیں بتائے گئے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے پیر کی شب جاری ہونے والے اس بیان میں کہا گیا کہ افغان امن کونسل کی درخواست پر نومبر میں بھی پاکستان نے اٹھارہ طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ اس طرح پاکستان میں زیر حراست طالبان قیدیوں میں سے اب تک 26 کو رہا کیا جا چکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے عہدیداروں نے طالبان قیدیوں کی رہائی کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا ہے۔

پاکستانی سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سابق سربراہ سلیم سیف اللہ نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان قیدیوں کی رہائی افغان حکومت کی درخواست پر کی گئی ہے اس لیے توقع ہے کہ اس سے افغانستان میں مفاہمت کے عمل میں مثبت پیش رفت ہو گی۔

’’جو افغانستان کی حکومت اور وہاں کے عوام کی جو کوششیں ہیں کہ یہ حالات بہتر ہوں تو ان میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔‘‘

پاکستان میں افغان طالبان کے ایک اہم رہنما ملا عبد الغنی برادر بھی زیر حراست ہیں لیکن تاحال ان کو رہا کیے جانے کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

نومبر کے وسط میں افغان اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں ایک وفد نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا تھا اور ان کی پاکستانی حکام سے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے پاکستان میں زیر حراست طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔


افغان اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ہمراہ (فائل فوٹو)



ایک طالبان رہنماء ملا برادر کو پاکستانی حکام نے 2010ء میں حراست میں لیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت کی خاطر افغان حکام ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان دھڑوں اور افغان حکومت کے درمیان جاری مفاہمت کی کوششوں کی کامیابی کے لیے پاکستان کی حمایت انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے جو ماضی میں طالبان حکومت کا مضبوط اتحادی رہا ہے۔