پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے نو دہشت گردوں کی سزا کی توثیق کر دی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جن مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی وہ راولپنڈی میں پریڈلین میں ایک مسجد پر حملے، ملتان میں انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے مرکزی دفتر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کے علاوہ لاہور میں شہریوں کے قتل اور اغوا میں ملوث تھے۔
جن مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی اُن میں محمد غوری، عبدالقیوم، محمد عمران، اقسن محبوب، عبدالرؤف گجر، محمد ہاشم، سلیمان، شفقت فاروقی اور محمد فرحان شامل ہیں۔
فوج کے بیان کے مطابق ان شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ، حرکت الجہاد الاسلامی اور کالعدم سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں سے ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ محمد غوری تحریک طالبان پاکستان کا متحرک رکن اور اُس کے میڈیا سیل کا انچارج تھا۔
محمد غوری راولپنڈی میں پریڈ لین کے علاقے میں ایک مسجد پر حملے میں ملوث تھا، اس حملے میں 38 افراد ہلاک اور 57 زخمی ہو گئے تھے۔
بیان کے مطابق محمد غوری نے مجسٹریٹ کی عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا اور اُس کے خلاف چار جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس کے بعد اُسے سزائے موت سنائی گئی۔
عبدالقیوم کا تعلق حرکت الجہاد اسلامی سے بتایا گیا اور اُسے ملتان میں انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ہیڈکوراٹر پر حملے میں ملوث ہونے پر موت کی سزا سنائی گئی۔ اس حملے میں سات افراد ہلاک اور 72 زخمی ہو گئے تھے۔
محمد عمران کالعدم تحریک طالبان کا متحرک رکن تھا جب کہ اقسن محبوب کا تعلق القاعدہ سے بتایا گیا۔ یہ دونوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے۔
عبدالرؤف گجر، محمد ہاشم، سلیمان، شفقت فاروقی اور محمد فرحان کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ سے ہے اور فوج کے بیان کے مطابق یہ لاہور میں شہریوں کے قتل اور اغوا میں ملوث تھے۔
دسمبر 2014 میں پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے میں 130 سے زائد بچوں سمیت لگ بھگ 150 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد بحال کر دیا تھا۔
جب کہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد عارضی پابندی کے خاتمے کے بعد سے گزشتہ ایک سال دوران 300 سے زائد مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی عائد کی جائے۔
تاہم پاکستان کا کہنا تھا کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
سینیٹر محمد جاوید عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’دہشت گردوں کے نذدیک انسانی جان کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے‘‘ اور اسی بنا پر حکومت نے اُنھیں سزائیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک بھر میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی جا رہی ہیں جن میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ ساڑھے تین ہزار دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جب کہ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
دریں اثناء فوج کے سربراہ نے جمعہ کو بلوچستان ساحلی علاقے گوادر کے علاوہ تلار اور تربت کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ عوام کی حمایت سے ملک میں دہشت گردی، جرائم اور بدعنوانی کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے گا۔
اُنھوں نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ 2016 ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور یکجہتی کا سال ہو گا۔