پاکستان میں سیلابی ریلا ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی اضلاع کی جانب بڑھ رہا ہے اور حکام کے مطابق اُن کی اولین ترجیح نشیبی علاقوں میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہے۔
صوبے میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد لگ بھگ 18 لاکھ ہو گئی ہے جب کہ پنجاب میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے ترجمان محمد نواز خالد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے میں دو ہزار سے زائد دیہات متاثر ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق صوبے میں 10 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین بھی متاثر ہوئی اور ابتدائی اندازوں کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چاول کی فصل کو پہنچا۔
صوبائی حکام نے جمعرات کے سہ پہر تک پنجاب میں 184 ہلاکتوں کی تصدیق کی جن میں سے اُن کے بقول زیادہ تر ہلاکتیں بارشوں سے ہوئیں۔
پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنماء زعیم قادری نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ جن علاقوں میں سیلاب کا خدشہ تھا وہاں بسنے والوں کو موبائل فون کے ذریعے ستر کروڑ مختصر تحریری پیغام یعنی ’ایس ایم ایس‘ بھیجے گئے جن میں اُنھیں تازہ صورتحال اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے کہا گیا۔
زعیم قادری نے بتایا کہ اب تک صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
’’تقریباً 15لاکھ کے قریب مویشی جو ان لوگوں کے ہمراہ تھے اُن کو بھی نکالا گیا ہے اور اُن کی ویکسینیشن بھی کئی گئی۔ 704 کمیپ صرف مویشیوں کے لیے لگائے گئے ہیں۔‘‘
اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مقامی لوگوں سے گفتگو میں اُنھیں یقین دہانی کروائی کہ بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
’’مشترکہ خواہش اور کوشش ہے کہ ہم آپ کے دکھ اور درد کو کم کریں۔‘‘
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں فوج بھی حصہ لے رہی ہے اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق پانچ ستمبر سے اب تک فوج 22 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر چکی ہے۔
آفات سے نمٹنے کے اداروں کے مطابق اب تک سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ میں ہوئی اور اب ملتان کے اُن حصوں کو خطرہ ہے جو دریائے چناب کے قریب ہیں۔