پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے ملک میں استحکام واپس آرہا ہے اور پاکستان سمیت اس کے گرد و نواح میں پرامن ماحول فوج کی "اولین ترجیح" ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر بتایا کہ جنرل راحیل نے ان خیالات کا اظہار بہاولپور میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پاکستانی سپہ سالار کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے اور ملک کے دیگر حصوں میں شدت پسندوں کے رابطوں کو ختم کرنے سے کوئی بھی چیز فوج کی توجہ نہیں ہٹا سکتی۔
دہشت گردی کے خلاف فوج کی مزاحمت، پیشہ وارانہ صلاحیت اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جنرل راحیل نے کہا کہ " کوئی بھی چیلنج نا ممکن نہیں ہے"، اور ان کے بقول پاکستان کے نوجوان ملک کا "عظیم اثاثہ" ہیں جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں پاکستان ایک ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اسے بھی بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا ہے جس میں اس کے پچاس ہزار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں پاکستانی فوج نے ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی اور بعد ازاں اکتوبر میں ایک اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور پھر خیبر ٹو کے نام سے آپریشن شروع کیا گیا۔
ان کارروائیوں میں فوجی حکام اب تک سینکڑوں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا بتا چکے ہیں۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز کیا گیا اور سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر پورے ملک میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف چھاپا مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔
پشاور اسکول حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اسے ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں کو امریکہ سمیت مختلف ممالک سراہتے ہوئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والے نتائج قابل ستائش ہیں۔