ڈاکٹر آفریدی کو ریاست مخالف کالعدم تنظیموں کی مالی اور طبی معاونت کے جرم پر اس سال مئی میں ایف سی آر کے تحت 33 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پشاور —
اُسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی معاونت کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل نے متعلقہ قوانین میں تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے موکل کو دی جانے والی 33 سال قید کی سزا منسوخ کرنے کی اپیل کی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے، خیبر ایجنسی، سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آفریدی کو ریاست مخالف کالعدم تنظیموں کی مالی اور طبی معاونت کے جرم پر اس سال مئی میں مقامی قوانین، ایف سی آر، کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
لیکن امریکہ اور بعض غیر جانبدار ناقدین کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو یہ سزا دراصل القاعدہ کے مفرور رہنما اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں پناہ گاہ تک پہنچنے میں امریکہ کی مدد کرنے کی پاداش میں دی گئی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف ایف سی آر کے تحت تشکیل دیے گئے ایک اعلیٰ عدالتی ٹربیونل میں اپیل دائر کی تھی جس کی جمعرات کو پشاور کی مرکزی جیل میں ابتدائی سماعت ہوئی۔
مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈاکٹر آفریدی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
اُن کے وکیل لطیف آفریدی نے ٹربیونل کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو ایف سی آر کے تحت صرف تین سال قید کی سزا دینے کا اختیار ہے مگراس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُن کے موکل کو 33 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مزید برآں وکیل صفائی نے کہا کہ ایف سی آر کی جن شقوں کے تحت ڈاکٹر آفریدی پر مقدمہ چلایا گیا اُن کا نفاذ تب ہی ممکن ہے جب صدر مملکت یا گورنر کی طرف سے ملزم کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی شکایت کرتے ہوئے قبائلی انتظامیہ سے اس کے خلاف کارروائی کی استدعا کی جائے۔
’’لیکن اپنے فیصلے میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ایسی کسی شکایت کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
وکیل لطیف آفریدی نے ٹربیونل سے استدعا کی کہ جب وفاق کی طرف سے کوئی تحریری شکایت ہی نہیں کی گئی تو ُان کے موکل کو سنائی گئی سزا کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
تاہم عدالت کی طرف سے سرکاری وکیل کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرنے پر وکیل صفائی نے مزید دلائل روک دیے اور سماعت 22نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
پاکستانی حکام نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گزشتہ سال مئی میں ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد گرفتار کیا تھا کہ بن لادن کی ابیٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے بیماریوں کے خلاف بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی جعلی مہم چلائی تھی۔
امریکہ نے اس گرفتاری پر احتجاج کیا تھا اور اس کے بعد دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھ گئی کیونکہ امریکی عہدے دار اور بعض قانون سازوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی سزا کے نہیں بلکہ انعام کے مستحق ہیں کیونکہ اُنھوں نے دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن تک پہنچنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ناقدین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ امریکی دباؤ کو مد نظر رکھ کر ڈاکٹر آفریدی پر لشکر اسلام جیسی کالعدم تنظیموں کی مدد کرنے کا الزام لگا کر اُنھیں ایف سی آر کے تحت 33 سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔
امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز نے حال ہی میں ڈاکٹر آفریدی کے جیل سے ٹیلی فون پر دیے گئے ایک مبینہ انٹرویو کی تفصلات جاری کی تھیں جس میں اس پاکستانی شہری نے بن لادن کی ہلاکت میں امریکہ کی مدد کرنے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس انٹرویو کو من گھڑت قرار دیا مگر آج تک فاکس نیوز اور خود ڈاکٹر آفریدی نے انٹرویو کی تردید نہیں کی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے، خیبر ایجنسی، سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آفریدی کو ریاست مخالف کالعدم تنظیموں کی مالی اور طبی معاونت کے جرم پر اس سال مئی میں مقامی قوانین، ایف سی آر، کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
لیکن امریکہ اور بعض غیر جانبدار ناقدین کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو یہ سزا دراصل القاعدہ کے مفرور رہنما اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں پناہ گاہ تک پہنچنے میں امریکہ کی مدد کرنے کی پاداش میں دی گئی ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف ایف سی آر کے تحت تشکیل دیے گئے ایک اعلیٰ عدالتی ٹربیونل میں اپیل دائر کی تھی جس کی جمعرات کو پشاور کی مرکزی جیل میں ابتدائی سماعت ہوئی۔
مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈاکٹر آفریدی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
اُن کے وکیل لطیف آفریدی نے ٹربیونل کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو ایف سی آر کے تحت صرف تین سال قید کی سزا دینے کا اختیار ہے مگراس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُن کے موکل کو 33 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مزید برآں وکیل صفائی نے کہا کہ ایف سی آر کی جن شقوں کے تحت ڈاکٹر آفریدی پر مقدمہ چلایا گیا اُن کا نفاذ تب ہی ممکن ہے جب صدر مملکت یا گورنر کی طرف سے ملزم کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی شکایت کرتے ہوئے قبائلی انتظامیہ سے اس کے خلاف کارروائی کی استدعا کی جائے۔
’’لیکن اپنے فیصلے میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ایسی کسی شکایت کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
وکیل لطیف آفریدی نے ٹربیونل سے استدعا کی کہ جب وفاق کی طرف سے کوئی تحریری شکایت ہی نہیں کی گئی تو ُان کے موکل کو سنائی گئی سزا کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
تاہم عدالت کی طرف سے سرکاری وکیل کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرنے پر وکیل صفائی نے مزید دلائل روک دیے اور سماعت 22نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
پاکستانی حکام نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گزشتہ سال مئی میں ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد گرفتار کیا تھا کہ بن لادن کی ابیٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے بیماریوں کے خلاف بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی جعلی مہم چلائی تھی۔
امریکہ نے اس گرفتاری پر احتجاج کیا تھا اور اس کے بعد دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھ گئی کیونکہ امریکی عہدے دار اور بعض قانون سازوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی سزا کے نہیں بلکہ انعام کے مستحق ہیں کیونکہ اُنھوں نے دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن تک پہنچنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ناقدین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ امریکی دباؤ کو مد نظر رکھ کر ڈاکٹر آفریدی پر لشکر اسلام جیسی کالعدم تنظیموں کی مدد کرنے کا الزام لگا کر اُنھیں ایف سی آر کے تحت 33 سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔
امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز نے حال ہی میں ڈاکٹر آفریدی کے جیل سے ٹیلی فون پر دیے گئے ایک مبینہ انٹرویو کی تفصلات جاری کی تھیں جس میں اس پاکستانی شہری نے بن لادن کی ہلاکت میں امریکہ کی مدد کرنے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس انٹرویو کو من گھڑت قرار دیا مگر آج تک فاکس نیوز اور خود ڈاکٹر آفریدی نے انٹرویو کی تردید نہیں کی ہے۔