پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کے مقام پر سرحد منگل کو مسلسل پانچویں روز بھی بند رہی۔
سرحد پر قائم ’’دوستی گیٹ‘‘ کی بندش سے تاجروں اور عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور سرحد کی دونوں جانب سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔
اس سرحدی راستے کو کھولنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں تعینات عہدیداروں کے درمیان بات چیت ہوئی لیکن اُس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
پاکستان حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے افغان نوجوان مظاہرین کی طرف سے چمن بارڈر پر پتھراؤ اور مبینہ طور پر پاکستانی پرچم جلایا گیا جس کے بعد سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چیمبر آف کامرس کوئٹہ کے رکن حاجی فتح خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کی بندش سے تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’’تاجروں کے لیے بہت زیادہ مشکلا ت ہیں، سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں تازہ پھلوں کی تجارت کا موسم ہے جن میں خربوزہ اور انگور کے پھل شامل ہیں یہ خراب ہو رہے ہیں اور لوگوں کو نقصان ہوا ہے۔۔۔۔۔ ہماری طرف لگ بھگ ایک ہزار ٹرک سامان سے لدے ہوئے کھڑے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں سرحد کی دوسری طرف کھڑے ہیں اور گاڑیوں کے عملے کے لیے نا پانی ہے نا کھانا ہے اور یہ بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہے‘‘
افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شریک چیئرمین زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکام پر زور دیا کہ چمن کی سرحد کے آرپار آمدورفت کو بحال کرنے کے لیے جلد اقدام کیا جائے۔
صوبہ بلوچستان میں چمن کے علاوہ پاکستان کے شمال مغرب میں قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں طورخم کے مقام پر قائم کراسنگ پوائنٹ دو اہم سرحدی راستے ہیں۔
رواں سال کے اوائل میں طور خم کے سرحدی راستے کو بھی کئی دنوں تک اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب کہ دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان ایک گیٹ کی تعمیر کے معاملے پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ مہینوں میں مختلف مسائل کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ کابل کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کی قیادت مبینہ طور پر پاکستان میں روپوش ہے۔ تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔