" میں اب بھی اپنے مردہ بچے کے جسم کو نہیں بھولا اور نہ کبھی بھول سکوں گا۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا کل کو کسی ماں اور اس کے بچے کے ساتھ نہ ہو، میں بس یہی چاہتا ہوں۔"
یہ کہنا ہے کہ صوبۂ سندھ کے ضلع تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے دھرموں کا جن کی حاملہ بیوی گزشتہ ہفتے اپنے پیٹ میں مردہ بچے کا سر لیے 319 کلو میٹر کا سفر طے کر کے حیدر آباد پہنچی تھی۔
دھرموں اپنی اہلیہ کو ایک اسپتال سے دوسرے اور پھر تیسرے اسپتال لے گئے۔ اس سفر کے دوران ان کی اہلیہ پر جو تکلیف کے پہاڑ ٹوٹے اس پر دھرموں کہتے ہیں کہ وہ تکلیف الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
دھرموں بتاتے ہیں کہ مٹھی سے حیدر آباد کے سفر میں ان کی بیوی کبھی بیہوش تو کبھی تکلیف میں چیخیں مارتی تھی اور ان کا ذہن اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا بس یہ تھا کہ اسپتال جلدی آجائے اور بیوی کی جان بچ جائے۔
تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے بھیل قبیلے کے دھرموں کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی 32 سالہ بیوی ملوکا جمعرات 16 جون کو اٹھنے والے شدید درد کی شکایت کرنے لگیں تو گاؤں کی سب سے تجربہ کار دائی کو طلب کیا گیا۔
دھرموں کے مطابق دائی نے بہت کوشش کی لیکن جب بچے کا دھڑ باہر آگیا اور سر اندر پھنس گیا تو اس نے کوشش ختم کرتے ہوئے ملوکا کو کسی اسپتال لے جانے کا کہا۔
دھرموں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کا پہلا بچہ تھا اس سے پہلے چار بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی ضائع ہوچکے تھے۔ اس لیے انہوں نے فوراً ایک خیراتی اسپتال کی جانب دوڑ لگائی۔
SEE ALSO: خوارک کی کمی یا قبل از وقت پیدائش؛ تھر میں بچوں کی اتنی اموات کیوں ہوتی ہیں؟دھرموں کے بقول، "خیراتی اسپتال پہنچے تو وہاں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں تھی، نرسیں تھیں جنہوں نے میری بیوی کی حالت دیکھی تو خود ہی کوشش کی لیکن پھر کچھ دیر بعد ایک چادر میں انہوں نے ہمیں بچے کا دھڑ لپیٹ کر دے دیا اور کہا کہ اس کا سر ماں کے پیٹ میں ہے۔ تم اسے فوراً مٹھی کے سرکاری اسپتال لے جاؤ۔ ہم وہاں سے مٹھی گئے تو وہاں سے بھی جواب مل گیا اور کہا گیا کہ حیدر آباد کے اسپتال لے جاؤ۔ پھر ہم اسے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز اسپتال جامشورو لے آئے جہاں آپریشن کرکے مردہ بچے کا سر نکالا گیا۔"
دھرموں کے مطابق ان کی بیوی ابھی اسپتال میں زیر علاج ہے اور اس کی طبیعت ویسے تو خطرے سے باہر ہے لیکن وہ اب تک صدمے میں ہےاور اسپتال سے چھٹی ہوتے ہی وہ گھر روانہ ہوجائیں گے۔
ملوکا، دائی سے ناکامی کے بعد سب سے پہلے جس خیراتی اسپتال پہنچیں تھی اس کا نام 'لو اینڈ ٹرسٹ پاکستان' اسپتال ہے۔ یہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو میں کورین فنڈ سے چلنے والا خیراتی اسپتال ہے جہاں انتظامیہ کے مطابق وہ تمام سہولیات میسر ہیں جو ایک سرکاری اسپتال میں ہونے چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسپتال کے منیجر انور سندھو نے بتایا کہ ان کے اسپتال میں ہر ماہ 60 سے زائد ڈیلوریاں کی جاتی ہیں اور اس کی فیس بھی انتہائی کم ہے۔ تاہم ملوکا کے واقعے کے روز وہ چار روز کی چھٹی پر تھے۔
انور سندھو کے بقول، " یہ واقعہ سولہ جون کی صبح آٹھ بجے پیش آیا مجھے اس کی خبر اگلے روز ملی جب مجھے واٹس ایپ پر ویڈیو موصول ہوئی، میں نے پھر اسپتال کے نرسنگ اسٹاف اور ڈاکٹرز سے معلومات لیں۔ ان کے توسط سے معلوم ہوا کہ جب ملوکا نامی مریضہ اسپتال میں داخل ہوئیں تو وہ مٹی میں لت پت تھیں اور اس وقت بچے کا سر اندراور دھڑ باہر تھا۔"
انورسندھو کہتے ہیں کہ دائی کے کئی ناکام ٹرائلز کے بعد وہ ملوکا اسپتال پہنچیں تھی۔ وہ جہاں سے اسپتال پہنچے وہ راستہ ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کا ہے لیکن راستے میں ان کی گاڑی خراب ہوئی جس کے سبب مریضہ کو مزید ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور اس دوران تکلیف کے سبب اسے گاڑی سے نکال کر باہر زمین پر لٹایا گیا۔ یہ سب نرسوں کو مریض کی ہسٹری لینے کے دوران معلوم ہوا۔
اسپتال کے منیجر مزید کہتے ہیں ان کے اسپتال میں ڈاکٹر صبح نو بجے آتے ہیں لیکن اس روز اتفاقاً ایک گائنو کولوجسٹ ڈاکٹر فلیمینو ڈریگو بیمار ہونے کے سبب چھٹی پر تھیں جب کہ کورین سرجن ڈاکٹر من بھی موجود نہیں تھے۔ مریضہ کی تکلیف دیکھتے ہوئے جونئیر نرسوں سے سینئر نرسوں سے مشورہ کیا اور مریضہ کو فرسٹ ایڈ دے کر مٹھی اسپتال لے جانے کا کہا۔ لیکن مریضہ مٹی میں لت پت تھیں اور بچے کے جسم پر بھی مٹی تھی تو نرسوں نے مریضہ کے جسم کو صاف کرنے اور دھونے کے بعد ڈرپ لگائی۔
نرسوں کا کہنا ہے کہ بچے کے دھڑ کی ایک جلد اندر رہنے والے سر کے ساتھ جڑی تھی۔ جو صفائی کرنے کے دوران الگ ہوگئی تھی جب ایسا ہوا تو سر اندر چلا گیا اور دھڑ باہر آگیا۔
ملوکا کا ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اسپتال کا سفر
انور سندھو کے مطابق اس واقعے سے ان کے اسپتال کی ساکھ پر برا اثر پڑا ہے۔ اسٹاف کے مطابق دائی کی ناکام کوششوں کے سبب بچہ مر چکا تھا اس کے گردن کی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھی صرف جلد کا ایک حصہ اس کے دھڑ سے جڑا ہوا تھا جو یہاں الگ ہوگیا۔ جس سے یہ تاثر ملا کہ بچے کے دھڑ کو سر سے الگ اس اسپتال نے کیا ہے۔
انور سندھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اس دائی کی عمر ستر سال سے زائد ہے اور وہ نابینا بھی ہے جس کی جانب سے ہونے والی کوتاہی نے ایک عور ت کی جان کو خطرے میں ڈالا۔
دھرموں جب لو اینڈ ٹرسٹ اسپتال سے اپنی بیوی کو مٹھی کے سرکاری اسپتال لے کر گئے تو وہاں ڈاکٹروں نے ان سے آپریشن کے لیے فوری خون کے بندوبست کرنے کا کہا ۔
مٹھی کے سرکاری اسپتال میں بلڈ بینک کی سہولت میسر نہیں۔ دھرموں جو کئی گھنٹوں سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بیوی کو لے کر گھوم رہے تھے ان کے لیے خون کا انتظام کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ یوں مٹھی اسپتال نے یہ معاملہ کسی اور اسپتال لے جانے کا کہہ کر اپنی ذمہ داری ختم کرڈالی۔
مٹھی سے ملوکا نے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز اسپتال کا سفر زندگی اور موت کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے کیا۔ اسپتال پہنچنے پر ان کا سی سیکشن کیا گیا اور ڈاکٹر نے ماں کے پیٹ سے نکالے جانے والے سر کی تصاویر لیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یہ واقعہ خبروں کی زینت بن گیا۔
حکومتِ سندھ نے اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جو مکمل ہوچکی ہے۔ صوبائی محکمۂ صحت نے مٹھی کے سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور خاتون گائنو کولوجسٹ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے جنہوں نے چھاچھرو سے خون میں لت پت ایک حاملہ عورت کو طبی امداد دینے کے بجائے دوسرے اسپتال بھیجنے کا کہا ۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس انکوئری کمیٹی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر خورشید قریشی، سندھ گورنمنٹ شاہ بھٹائی کی گائنو کولوجسٹ ڈاکٹر عذرا اسلم اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر گریش کمار نے واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے ڈاکٹرز اور اسٹاف کے انٹر ویوز کیے۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ لو اینڈ ٹرسٹ اسپتال کے غیر تربیت یافتہ نرسز، مڈ وائف اور اسٹاف کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے کہ انہوں نے ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے سبب کیوں ایک عورت کی ڈیلوری کرنے کی کوشش کی اور مریضہ کو مٹھی اسپتال ایمبولینس میں کیوں نہیں بھیجا۔ اس کے علاوہ لیاقت میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا جس نے مردہ بچے کے سر اور حاملہ خاتون کی تصاویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں۔
انکوئری کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے کہ چھاچھرو سمیت تھر پارکر کے دیگر قصبوں، علاقوں میں فوری گائنو کولوجسٹ کی دستیابی اور ایمبولینس کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ ساتھ ہی چھاچھرو میں قائم تعلقہ اسپتال کی حالت بہتر کرنے اور اس میں بہتر سہولیات کو شامل کیا جائے۔
محکمۂ صحت سندھ کی جانب سے تحقیقات کے مکمل ہونے اور رپورٹ آنے کے بعد انور سندھو کا کہنا ہے کہ تاحال ان کے اسپتال کو محکمۂ صحت سے کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا۔ تاہم ملوکا کے لیے بچے کی پیدائش اور اس جڑے یہ واقعات تمام عمر کے لیے ایک برے خواب کی طرح ہیں۔
دھرموں کا کہنا ہے کہ بچے کو گود میں لینے کے ان کے ارمان سب ختم ہو گئے ہیں۔