داعش پر فضائی حملے کے معاملے پر برطانیہ منقسم

داعش

حالیہ عام جائزے سے پتا چلتا ہے کہ سروے میں شریک برطانیہ کے زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مسلح جنگجو ملک کے لئے خطرہ ہیں؛ جب کہ شرکا کے نصف نے کہا ہے کہ فوجی جواب ہی مسئلے کا حل ہے

امریکی قیادت میں شام پر فضائی حملوں میں شرکت کے معاملے پر برطانوی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ برطانوی قانون سازوں کے درمیان اس مسئلے پر رواں ہفتے رائے شماری ہوگی۔

’وائس آف امریکہ‘، لندن سے الٹر ولمین کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمومی طور پر یورپی باشندے داعش کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن، برطانیہ میں ایک واضح مخالفت بھی موجود ہے۔ اس لئے، قانون دانوں کے لئے وہاں بمباری کرنے کے عہد پر عمل کرنا مشکل معاملہ ہے۔

سروے کرنے والے ایک برطانوی ماہر، یوگوو کا کہنا ہے کہ 59 فیصد شہری داعش پر فضائی حملے کے حامی ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ نے 300 برطانوی شہریوں کے ساتھ ایک سروے کیا، جس میں سے 44 فیصد لوگوں کو اس بات کا یقین تھا کہ شام میں داعش پر حملہ برطانوی مفاد میں ہے۔ لیکن، 36 فیصد کی رائے تھی کہ یہ حملہ برطانیہ کے مفاد میں نہیں، جبکہ 20 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔

تاہم، تقریباً تمام لوگوں کی رائے تھی کہ مسلح جنگجو ملک کے لئے خطرہ ہیں۔ ان میں سے نصف کا کہنا تھا کہ فوجی جواب ہی مسئلے کا حل ہے۔

پانچ میں سے ہر دوسرا شخص جن کا مؤقف تھا کہ شام پر بمباری برطانوی مفاد میں نہیں ہے، کہا کہ داعش کو صرف فوجی طاقت سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔

مانسچسٹر کے ایک طالب علم، سمسن ہارٹ کا کہنا تھا کہ مجھے خدشہ ہے کہ فوجی حل کی سوچ خود برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے الٹے نتائج نہ برآمد کرے گی۔

اسی طرح کی سوچ کی عکاسی وہ ہزاروں مظاہرین بھی کررہے تھے جنھوں نے ان فضائی حملوں کے خلاف اسپین اور برطانیہ میں ہفتے کو احتجاج کیا۔ لندن میں کوئی 4000 لوگوں نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔

برمنگھم سے تعلق رکھنے والے ایک انتظامی افسر انتھونی پیٹرک اس موقع پر لندن میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ برطانیہ کسی بھی ملک پر بمباری کرے۔

بقول اُن کے، ’آپ کسی ایسے شخص سے بات چیت نہیں کرسکتے جو خود کو اڑا دینے کے لئے تیار ہو۔ ان کا ایجنڈا صرف یہ نہیں کہ جس پر وہ سیاسی طور پر یا مذاکرات کی میز پر تیار ہوجائیں۔ اس لئے، آپ کو ان سے لڑنا ہے‘۔

برطانیہ گزشتہ برس سے داعش پر عراق میں فضائی حملے کر رہا ہے۔ لیکن، اس گروپ کا ہیڈکوارٹر شام میں رقعہ کے مقام پر ہے۔ پیرس میں حالیہ حملے پر وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بمباری کی اجازت پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔