|
”ہمارا گھر، میری بہنیں، ان کے بیٹے، ان کی بیٹیاں، وہ سب دنیا سے جا چکے ہیں، سب کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔"
"یہ پاگل پن ہے، یہ ہمارے لیڈروں اور اسرائیلی لیڈروں کی طرف سے جرم کی انتہا ہے۔"
یہ الفاظ تھے غزہ کے طباطبائی خاندان کے ان افراد کے جن کے 60 سے زیادہ عزیز اپنے مکانات پر اسرائیل کی الگ الگ بمباری سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
غزہ کا طباطبائی خاندان اسرائیل کی جانب سے ان عمارتوں پر،جن میں وہ پناہ لیے ہوئے تھے، دو الگ الگ بمباریوں میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنے 60 سے زیادہ رشتے دارو ں کی ہلاکت کے بعد دوسری بار سوگ منا رہا ہے۔
ایک رشتے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ تازہ ترین حملہ جمعہ کی صبح غزہ شہر کے گنجان آباد دراج محلے میں ہوا، جس میں خاندان کے کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک تنگ گلی میں واقع چھ منزلہ عمارت، جہاں طباطبائی خاندان مقیم تھا جمعے کے روز بھی کھڑی تھی۔ اس کی بالکنیاں اگلے حصے میں محض اٹکی ہوئی تھیں۔ نچلی منزل جل کر خاکستر ہو چکی تھی اور ملبہ ہر طرف بکھرا ہوا تھا۔
خاندان کے زندہ بچ جانے والے ایک فرد،خالد الطباطیبی نے اے ایف پی کو بتایا،“ ہم نے کسی میزائل یا کسی چیز کے گرنے کی کوئی آواز نہیں سنی، ہم سب سو رہے تھے۔”
اس نے روتے ہوئے بتایا ،”ہمارا گھر، میری بہنیں، ان کے بچے، ان کی بیٹیاں، وہ سب ہلاک ہو چکے ہیں، سب کے سب ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔”
“جب قابض طیاروں نے گھر پر بمباری کی تو ہم سوئے ہوئے تھے۔ ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے مکان کو نشانہ کیوں بنایا، یہ قتل عام ہے، غارت گری ہے۔”
ایک پڑوسی،زیاد درداس، جس کا بھائی حملے میں زخمی ہو گیا تھا، صحیح طرح سے بات نہیں کر پا رہا تھا۔
اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ”یہ پاگل پن ہے، یہ ہمارے لیڈروں اور اسرائیلی لیڈروں کی طرف سے جرم کی انتہا ہے۔”
اس نے مزید کہا، میں”(فلسطینی) اتھارٹی، حماس کے رہنماؤں سے پوچھتا ہوں کہ یہ کافی کیوں نہیں ہے؟”
گھر پر اس وقت بمباری ہوئی جب ہم اندر تھے
اطلاعات کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو غزہ شہر کے الشفاء ہسپتال لے جایا گیا جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کی ایک حالیہ فوجی کارروائی میں تباہ ہو چکا ہے۔
طباطبائی خاندان جو کئی بار اسرائیلی بمباری سے بے گھر ہوتا رہا ہے، پہلے ہی سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔
15 مارچ کو، یہ خاندان وسطی غزہ میں رمضان کے پہلے جمعے کی رات کے دوران مل کر سحری کھانے کے لیے اکٹھا ہوا تھا، جو جلد ہی خون کی ہولی میں بدل گیا۔
اس موقع پر عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اس عمارت پر جس میں وہ قیام پذیر تھے، فضائی حملہ اس وقت ہوا تھا جب خواتین سحری تیار کر رہی تھیں، جس سے خاندان کے 36 افراد ہلاک ہو گئے۔
حماس کے زیرانتظام غزہ میں وزارت صحت نے، جس نے ہلاکتوں کی اتنی ہی تعداد بتائی جتنی کہ زندہ بچ جانے والوں نے بتائی تھی، شہر کے نصیرات کے علاقے میں ہونے والے حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا۔
جب اسرائیلی فوج سے اس حملے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ اس نے "رات میں" نصیرات میں دو دہشت گرد کارندوں" کو نشانہ بنایا تھا۔
محمد الطباطیبی نے الاقصیٰ شہداء ہسپتال سے اپنے رشتے داروں کی میتوں کو ٹرکوں کے ذریعہ قبرستان لے جانے سے قبل بتایا تھا، "انہوں نے مکان پر اس وقت بمباری کی جب ہم اس میں موجود تھے۔ میری والدہ اور میری خالہ سحری تیار کر رہی تھیں۔ وہ سب ہلاک ہو گئی۔"
غزہ میں جنگ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے اس غیر معمولی حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر اے پی کی گنتی کے مطابق تقریباً 1,170 لوگ ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر عام شہری تھے۔
حماس کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کی انتقامی فوجی مہم میں حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، کم از کم 33,634 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔