کامیاب انتخابات منعقد ہونے پر، امریکی محکمہٴخارجہ نے افغان عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ پانچ اپریل اور پھر 14 جون کو ہمت کا مظاہر کرتے ہوئے، لاکھوں افغان مرد و زن نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر ’جمہوریت کے فروغ میں حصہ ڈالا‘، باوجود یہ کہ طالبان نے امن و امان کے بگاڑ کی ’دھمکی دے رکھی تھی‘۔
محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے اتوار کے دِن ایک بیان میں کہا ہے کہ قومی حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ افغانوں کی بہادری اور اجتماعی احساسات کی حرمت کا پاس رکھے۔
بقول ترجمان، ’ہم منتخب صدر، ڈاکٹر اشرف غنی کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ قریبی ساجھے داری قائم کرنے کے منتظر ہیں، ایسے میں جب قومی وحدت پر مبنی حکومت تشکیل دے کر فرائض انجام دینا شروع کرتے ہیں‘۔
ترجمان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ افغانستان میں بننے والی قومی حکومت کو ملنے والے مضبوط اور قابل قدر مینڈیٹ، لاکھوں حامیوں کے حقیقی ووٹوں کے تناظر میں تمام افغانوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے درکار قومی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
جین ساکی نے کہا کہ ہم متعدد افغانوں کے جانفشانی سے کام کی داد دیتے ہیں، جنھوں نے نتائج کو تاریخی بنانے کے لیےانتخابات میں حصہ لیا، جب کہ افغان نیشنل سکیورٹی فورس کی کاوشیں قابل ستائش ہیں جنھوں نے سلامتی فراہم کرنے کے لیے نمایاں کام انجام دیا۔ ’ساتھ ہی، ہم بین الاقوامی برادری کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے مبصرین بھیجے، جب کہ اقوام متحدہ نے مشیر اور انتخابی ماہرین کی غیرمعمولی تعیناتی سرانجام دی‘۔
ترجمان نے صدر حامد کرزئی، جنھوں نے گذشتہ 13 برس سے مضبوط قیادت فراہم کی، کی خدمات کا اعتراف کیا، جس کے باعث، بقول ترجمان، افغان عوام کے لیے متعدد آسانیاں پیدا ہوئیں، جس کے نتیجے میں افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار قیادت کی جمہوری اور پُرامن منتقلی ممکن ہوئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگے، جن کے نتیجے میں غیرمعمولی طور پر سارے کے سارے 100 فی صد بیلٹ پیپرز کی چھان بین ہوئی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم انتخابی عمل میں ہونے والی ممکنہ دھاندلی سے متعلق امیدواروں کے جذبات میں شریک ہیں؛ خصوصی طور پر وہ جو انتخابی اداروں سے وابستہ افراد سے سرزد ہوئی، جن کا ذمہ افغانوں کے جمہوری احساسات کا تحفظ کرنا تھا۔
ترجمان نے کہا ہے کہ جانچ پڑتال کے تفصلی کام کے لیے پُر عزم کوششیں کی گئیں، اور یہ کہ چھان بین کے عمل سے دھاندلی کے حربوں کی نشاندہی ممکن ہوئی، جو دائرے اور طریقہٴکار کے اعتبار سے اہمیت کے حامل تھے۔ تاہم، آڈٹ کے عمل میں تکنیکی نقائص کے پیش نظر، دھاندلی کی تفصیل کو آشکار کرنا ممکن نہ تھا۔
امیدواروں اور متعدد مبصرین نےانتخابی عمل میں بے ضابطگیوں پر جائز تشویش کا اظہار کیا۔ حتی الوسع کوششوں کے باوجود، جانچ پڑتال سے تمام شکایات کو رفع نہیں کیا جاسکا، نہ ہی ایسا کرنا ممکن تھا۔ اس کے باوجود، انتخابی عمل کے حتمی نتائج قانونی اور شفاف ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ امیدواروں کو انتخابی عمل پر اعتراضات اور شدید تشویش لاحق تھی، اِنھیں دور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے، اُنھوں نے ملک کی بہتری کے لیے اور نقصاندہ سیاسی غیر یقینی کے حل کی خاطر، انتخابات کے نتائج کی پاسداری کی گئی۔ اِسی وجہ سے، نئی انتظامیہ نے انتخابی اصلاحات کو اپنی اولین ترجیحات میں شمار کیا ہے، ’جس ہدف کی ہم حمایت کرتے ہیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ ہم نئے صدر اور نئے چیف اگزیکٹو افسر کے عہدہ سنبھالنے؛ سلامتی کے باہمی سمجھوتے اور نیٹو سے معاہدے SOFA پر دستخط کیے جانے کے منتظر ہیں؛ ساتھ ہی، افغان عوام کے ساتھ گہری اور دیرپہ پارٹنرشپ کے منتظر ہیں۔۔۔ ایسے میں، ہم نئی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔